Book Name:2 Mubarak Hastiyan
دوسری بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ آج عورتوں کی ایک تعداد ہےجن کاحال یہ ہےکہ مال ودولت ، زیورات و عُمدہ لباس وغیرہ کےحُصُول کےلئے بھاگ دوڑ کرتی نظر آتی ہیں ، الماریاں بھری ہوئی ہوتی ہیں مگر ان کے دل کی لالچ و حرص ختم نہیں ہو رہی ہوتی ، اورمل جائے ، اچھا مل جائےاسی تگ و دو میں رہتی ہیں۔ افسوس کہ لاکھوں کے زیورات اور لباس ہونے کے باوجود راہِ خُدا میں ایک پائی خرچ کرتے ہوئے ہچکچاتی ہیں۔
ایسی خواتین کے لیےحضرت عُمر بن عَبْدُالْعزِیز رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی بےمثال اہلیہ کا بے مثال کردار مَشْعلِ راہ( یعنی رہنمائی کرنے والا چراغ) ہے کہ وہ زیورات جو ان کے پاس تھے ، وہ ان کو ان کےوالد نےدیئے تھے جو اپنے وقت کےخلیفہ تھے ، قطعی طور پر حضرت عُمر بن عَبْدُالْعزِیز رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی اہلیہ ان زیورات کی مالکہ تھیں۔ وہ چاہتی تو کہہ دیتیں کہ میرے والد نے دیئے ہیں ، انہوں نے جہاں سے بھی لئے ہوں اب تو یہ میرےہی ہیں۔ مگر انہوں نے ایسا کچھ نہیں کہا ، بلکہ کمال تابعداری کامُظاہَرہ کرتے ہوئے کہنے لگیں : جیسی آپ کی رائے ہو (کیجئے) میری طرف سےاجازت ہے۔
یہاں یہ بات بھی ہےکہ حضرت عُمر بن عَبْدُالْعزِیز رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کےخلیفہ بنتے ہی ان کی اہلیہ کی دولت اور مال میں اضافہ ہونا چاہیے تھا کہ اب بڑا عُہْدہ تھا تو آمْدَنی بھی بڑھنا چاہیےتھی ، خودخلیفہ انہیں تحائف دیتے ، دیگر لوگ نذرانے پیش کرتے ، وہ خود بھی اپنے شوہر سے کسی مہنگی چیز کی فرمائش کر سکتی تھیں ، کیونکہ ہم اپنے اردگرد دیکھتی ہیں کہ کسی کےخاوند کو معمولی تَرَقّی مل جائے یا کوئی عُہْدہ مل جائے تو بیوی یہ سنتے ہی فرمائشوں کےانبار لگا دیتی ہے ، اسے پروا تک نہیں ہوتی کہ خاوند ناجائز ذرائع سے اس کی فرمائش پوری کرتا ہےیا اپنی حلال تنخواہ سے اس مُطالبے کا انتظام کرتا ہے ، اسے تو بس اپنے قیمتی لباس اور زیورات سے سروکار ہوتا ہے ، اور اس طرح کی خواتین یہ کہتی دکھائی دیتی ہیں اب آپ اَفْسربن گئے ہیں ، میرے پاس تو ڈھنگ کےزیور نہیں ، ڈھنگ کےسوٹ نہیں ، لوگ کیا کہیں گے کہ اَفْسر کی بیوی بھکارن کی طرح بن کر گھومتی ہے؟ مجھے اچھے اچھے سوٹ اور زیورات لا کر دوتاکہ میں اپنے مقام و مرتبے (Status) کے مُطابق زندگی گُزاروں۔ حضرت عُمر بن عبدُالعزیز رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کی اہلیہ بھی اپنے شوہر سے یہی مُطالبات