Khof e Khuda Main Rone Ki Ahamiyat

Book Name:Khof e Khuda Main Rone Ki Ahamiyat

صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ   کی خدمتِ اقدس میں کھانا پیش کیا تو ارشاد فرمایا : “ تم بھی کھاؤ۔ “ میں نے عرض کی : میں روزے سے ہوں۔ تو رحمتِ عالم   صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ   نے فرمایا : جب تک روزہ دار کے سامنے کھانا کھایا جاتا ہے ، فِرشتے اس( روزہ دار) کے لیے دُعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں ۔  (تِرمِذی ، ۲  / ۲۰۵  ، حدیث :  ۷۸۵)

(2)روزہ دار کی ہڈیاں کب تسبیح کرتی ہیں

      حضرت بِلال رَضِیَ اللہُ عَنْہُ  نبیِّ اَکْرَم   صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ   کی خدمتِ اقدس میں حاضِرہوئے ، اُس وقت حُضُورِ انور   صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ   ناشتا کررہے تھے ، فرمایا : “ اے بِلال!ناشتا کرلو۔ “ عرض کی : “ یَارَسُوْلَاللہ   صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ  ! میں روزہ دار ہوں۔ “ رسولِ کریم   صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے فرمایا : ہم اپنی روزی کھارہے ہیں اور بلال کا ر ِزق جنّت میں بڑھ رہا ہے۔ اے بلال ! کیا تمہیں خبر ہے کہ جب تک روزے دار کے سامنے کچھ کھایا جائے تب تک اُس کی ہڈّیاں تسبیح کرتی ہیں اور اسے فرشتے دُعائیں دیتے ہیں۔ ( شُعَبُ الْاِیمان ، ۳  /  ۲۹۷ ، حدیث :  ۳۵۸۶)

حکیْمُ الاُمَّت حضرت مفتی احمد یار خان   رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ   فرماتے ہیں : اس سے معلوم ہوا!اگر کھانا کھاتے میں کوئی آجائے تو اُسے بھی کھانے کے لیے بُلانا سُنَّت ہے ، مگر دِلی اِرادے سے بُلائے جُھوٹی تَوَاضُع (چھوٹی مہمان نوازی) نہ کرے ، اور آنےوالا(مہمان) بھی جُھوٹ بول کر یہ نہ کہے : مجھے خواہش نہیں ، تاکہ بُھوک اور جُھوٹ کا اجتماع نہ ہوجائے ، بلکہ اگر ( نہ کھانا چاہے یا) کھانا کم دیکھے تو کہہ دے : بَارَکَ اللّٰہ( یعنی اللہ کریم بَرَکت دے)۔ یہ بھی معلوم ہوا!حضور پاک   صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ   سے اپنی عبادات نہیں چُھپانی چاہئیں بلکہ ظاہر کردی جائیں تاکہ حُضُورِ انور   صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ   اِس پر گواہ بن جائیں۔ یہ اظہار رِیا(یعنی دکھلاوا کرنا)نہیں۔ ( حضرت بلال رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے روزے کا سُن کر جو کچھ فرمایا گیا اُس کی شرح میں مفتی صاحب لکھتے ہیں : ) یعنی آج کی روزی ہم تو اپنی یہیں کھائے لیتے ہیں اور حضرت بلال رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ  اس کے عِوَض ( یعنی بدلے میں) جنّت میں کھائیں گے وہ عِوَض ( یعنی بدلہ ) اِس سے بہتر بھی ہوگا اور زِیادہ بھی۔ حدیث بالکل اپنے ظاہری معنیٰ پر ہے ، واقعی اُس وقت روزہ دار کی ہر ہڈّی و جوڑ بلکہ رگ رگ تسبیح( یعنی اللہ پاک کی پاکی بیان) کرتی ہے ، جس کا روزہ دار کو پتا نہیں ہوتا مگرسرکار ِ مدینہ   صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ   سنتے ہیں۔ (مرآۃ المناجیح ، ۳ / ۲۰۲ملخصاً)

(امیر ِاہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ فرماتے ہیں : )اگرمُطالَعہ کرلیا ہو تب بھی دونوں رِسالے(1)’’ کفن کی واپسی مَعَ رجب کی بہاریں‘‘اور(2)’’آقا   صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ   کا مہینا‘‘پڑ ھ لیجئے۔ نیز ہر سال  شَعْبانُ الْمُعَظَّممیں فیضانِ سُنّت جلداوّل کا باب’’فیضانِ رَمضان‘‘بھی ضَرور پڑھ لیا کریں۔ ہوسکے تو عِیْد ِمِعْرَاجُ النَّبِی کی نسبت سے 127یا27رسالے یا  جتنی توفیق