Book Name:Mout Ki Yaad Kay Fawaid

علّامہ مولانا محمد الیاس عطّار قادری رضوی دَامَت بَرَکاتہمُ الْعَالِیَہ ہماری تربیت کرتے ہوئے  فرماتے ہیں : یاد رکھئے ! غفلت کے ساتھ موت کو یاد کرنے سے  سعادت حاصل نہیں ہو گی کہ اس طرح تو انسان ہمیشہ جنازے دیکھتا ہی رہتا ہے اور کبھی اپنے ہاتھوں سے بھی انہیں قبْر میں اتارتا ہے ، موت کا تصور باندھنے کا بہترین طریقہ ( Best Method ) یہ ہے کہ  * کبھی کبھی تنہائی میں دل کو ہر طرح کے دنیاوی خیالات سے پاک کریں پھر پہلے اپنے اُن دوستوں اور رشتہ داروں ( Relatives ) کو یاد کیجئے جو وفات پاچکے ہیں * اپنے قرب و جوار میں رہنے والے فوت شدگان  میں سے ایک ایک کو یاد کیجئے اور تصور ہی تصور میں ان کے چہرے سامنے لائیے اور  خیال کیجئے کہ  * وہ کس طرح دنیا میں اپنے اپنے منصب و کام میں مشغول *  لمبی لمبی امیدیں باندھے * دنیاوی تعلیم کے ذریعے مستقبل کی بہتری کے لئے کوشاں تھے اور * ایسے کاموں کی تدبیر میں لگے تھے جو شاید سالہا سال تک مکمل نہ ہو سکیں * دنیاوی کاروبار کے لئے وہ طرح طرح کی تکلیفیں اور مشقتیں برداشت کیا کرتے تھے وہ صرف اس دنیا ہی کے لئے کوششوں میں مصروف تھے ، اسی کی آسائشیں ( Luxuries ) انہیں محبوب اور اسی کا آرام انہیں مرغوب تھا ، وہ یوں زندگی گزار رہے تھے گویا انہیں کبھی مرنا ہی نہیں ۔ چنانچہ وہ موت سے غافل خوشیوں میں بدمست اور کھیل تماشوں میں مگن تھے ، ان کے کفن بازار میں آ چکے تھے لیکن وہ اس سے بے خبر دنیا کی رنگینیوں میں گم تھے ، آہ ! اسی بے خبری کے عالَم  میں انہیں یکا یک موت نے آ لیا اور وہ قبْروں میں پہنچا دیئے گئے ، ان کے ماں باپ غم سے نڈھال ہو گئے ، ان کی بیوائیں بے حال ہو گئیں ، ان کے بچے بلکتے رہ گئے ، مستقبل ( Future ) کے حسِین خوابوں کا آئینہ چکنا چور ہو گیا ، امیدیں ملیا میٹ ہو گئیں ، ان کے کام ادھورے رہ گئے ، دنیا کے لئے