Book Name:Mout Ki Yaad Kay Fawaid

ان کی سب محنتیں رائیگاں گئیں ، ورثا ان کے اموال تقسیم کر کے مزے سے کھا رہے ہیں اور ان کو بھول چکے ہیں۔ اس تصور کے بعد اب ان کی قبْر کے حالات کے بارے میں غور کیجئے کہ اُن کے بدن کیسے گل سڑ گئے ہوں گے ، آہ ! ان کے حسِین چہرے کیسے مسخ ہو گئے ہوں گے ، وہ کھلکھلا کر ہنستے تھے تو منہ سے پھول جھڑتے تھے مگر آہ ! اب ان کے وہ چمکیلے خوبصورت دانت جھڑ چکے ہوں گے اور منہ میں پیپ پڑگئی ہو گی ، ان کی موٹی موٹی دلکش آنکھیں اُبل کر رُخساروں پر بہہ گئی ہوں گی ، ان کے ریشم جیسے بال جھڑ کر قبْر میں بکھر گئے ہوں گے ، ان کی باریک اونچی خوبصورت ناک میں کیڑے گھسے ہوئے ہوں گے ، ان کے گلاب کی پنکھڑیوں کی مانند پتلے پتلے نازک ہونٹوں کو کیڑے ( Insects ) کھا رہے ہوں گے نوجوانوں کے قابلِ رشک توانا ورزشی جسم خاک میں مل گئے ہوں گے ۔ ان کے تمام جوڑ الگ الگ ہو چکے ہوں گے ۔ یہ تصور کرنے کے بعد یہ سوچئے کہ آہ ! یہی حال عنقریب میرا بھی ہونے والا ہے ، مجھ پر بھی نزع کی کیفیت طاری ہو گی ، آنکھیں چھت پر لگی ہوں گی ، عزیز و اَقارب جمع ہوں گے ، ماں : میرا لال ! میرالال ! کہہ رہی ہو گی ، باپ مجھے : بیٹا ! بیٹا ! کہہ کر پکار رہا ہوگا ،  بہنیں بھائی ! بھائی ! کی آوازیں لگا رہی ہوں گی ، چاہنے والے آہیں اور سسکیاں بھر رہے ہوں گے ، پھر اسی چیخ و پکار کے پُر ہول ماحول میں روح قبض کر لی جائے گی ، کوئی آگے بڑھ کر میری آنکھیں بند کر دے گا ، مجھ پر کپڑا اُڑھا دیا جائے گا ، عزیزوں کے رونے دھونے سے کہرام مچ جائے گا ، پھر غسال ( غُسل دینے والے )  کو بلایا جائے گا ، مجھے تختۂ غسل پر لِٹا کر غسل دیا جائے گا اور کفن پہنایا جائے گا ، آہ و فُغاں کے شور میں اس گھر سے میرا جنازہ روانہ ہو گا جس گھر میں ، میں نے ساری عمر بسر کی ، کل تک جنہوں نے ناز اٹھائے آج وہی میرا جنازہ اُٹھا کر قبْرستان کی طرف چل پڑیں گے ، پھر مجھے قبْر میں اُتار کر