Book Name:Mout Ki Yaad Kay Fawaid
نہیں ، وہ بزرگ بات بھی بہت کم کرتے تھے ، ہاتھ ملاتے ہی میرے دِل میں خیال آیا کہ پوچھوں : آپ اتنے کمزور کیوں ہیں ؟ وہ بزرگ روشن ضمیر تھے ، ابھی میں نے دِل ہی میں سوچا تھا ، میرے پوچھنے سے پہلے ہی انہوں نے فرمایا : ایک دِن میں اپنے ایک دوست کے ساتھ قبرستان سے گزرا ، ہم تھوڑی دیر کے لئے ایک قبر کے پاس بیٹھ گئے ، اس دوران اتفاقاً کوئی ایسی بات ہوئی کہ میں قہقہہ لگا کر ہنس پڑا ، اسی وَقْت قبر سے آواز آئی : اے غافِل ! جس کو ایسا مَقام در پیش ہو ، اُسے ہنسی سے کیا کام... ؟ جونہی یہ آواز سُنی ، میں وہاں سے اُٹھ کھڑا ہوا ، دوست جو میرے ساتھ تھا ، اسے میں نے اَلْوِدَاع کہا اور خود مسجد میں آ کر بیٹھ گیا ، مجھ پر ہیبت طاری تھی ، میں قبرستان میں ہنسا ، مجھ پر غفلت آئی ، مجھے اس پر ندامت ہو رہی تھی ، وہ دِن تھا اور آج کا دِن ہے ، 40 سال ہو گئے میں نے اسی شرم کے مارے آج تک آسمان کی طرف نگاہ نہیں اُٹھائی ، میں شرمندہ ہوں کہ قِیامت کے روز اللہ پاک کے حُضُور کس مُنْہ سے جاؤں گا۔( [1] )
کب گناہوں سے کَنارا میں کروں گا یَاربّ ! نیک کب اے مِرے اللہ ! بنوں گا یَا ربّ !
آج بنتا ہوں مُعزَّز جو کھلے حشر میں عیب آہ ! رُسوائی کی آفت میں پھنسوں گا یَاربّ !
کب گناہوں کے مَرض سے میں شِفا پائوں گا کب میں بیمار ، مدینے کا بنوں گا یَاربّ ! ( [2] )
خواجہ مُعِیْنُ الدِّیْن چشتی اجمیری رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ نے مزید فرمایا : ایک مرتبہ میں اپنے پِیر و مُرشِد خواجہ عثمان ہَرْوَنی رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ کے ساتھ سَیْوِسْتَان گیا ، وہاں ہم شیخ صَدْرُ الدِّیْن محمد اَحْمد سَیْوِسْتَانی رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ کے پاس پہنچے ، آپ ایک جھونپڑی ( Cottage ) میں رہتے تھے ، اللہ پاک کی یاد میں ہر وَقْت مشغول رہتے ، جو کوئی ان کے پاس حاضِر ہوتا ، خالی ہاتھ نہ لوٹتا ، شیخ احمد