Book Name:Mout Ki Yaad Kay Fawaid

سَیْوِسْتانی رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ ہر آنے والے کو فرماتے : اس دَرْوَیْش کے لئے سلامتئ اِیمان کی دُعا کرو ! اگر میں قبر میں اپنا اِیمان سلامت لے گیا تو بڑا کام کروں گا۔ ( یعنی دُنیا سے ایمان سلامت لے کر قبر میں اُتر جانا بڑا کارنامہ ہے بلکہ یہی اَصْل کارنامہ ہے کہ آدمی نفس و شیطان سے اپنا ایمان بچا کر سلامت نکل جائے ) ۔

شیخ اَحْمد سَیْوِسْتانی رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ موت اور قبر و آخرت سے متعلق بہت فِکْر ( Worried ) مند رہتے تھے ، جب بھی ان کے سامنے موت اور قبر کا ذِکْر ہوتا تو ان پر ہیبت طارِی ہو جاتی ، بدن مبارک خوف سے کانپنے لگتا اور اتنا روتے اتنا روتے کہ انہیں روتا دیکھ کر ہمیں بھی رونا آ جاتا۔پھر فرماتے : اے عزیزو ! جسے موت آنی ہے ، مَلَکُ الموت  عَلَیْہِ السَّلَام  جس کے پیچھے ہیں ، جس نے قِیامت جیسا ہولناک دِن دیکھنا ہے ، اسے نیند اور ہنسی سے کیا واسطہ... ! ! ایسا آدمی فضولیاتمیں کیسے مشغول ہو سکتا ہے ؟ پھر فرماتے : اے عزیزو ! قبروں میں لیٹے ہوئے مُرْدَے چیونٹیوں اور سانپوں کی گرفت میں ہیں ، مٹی کے قید خانے میں بند ہیں ، اگر تمہیں ان کا حال معلوم ہو جائے تو کھڑے کھڑے نمک کی طرح پگھل جاؤ ! اے عزیزو ! جا کر موت کی تیاری میں لگ جاؤ ! ہم سب کو ایک دِن پیش آنے والا ہے ، شاید ہم اپنا ایمان سلامت لے جانے میں کامیاب ہو جائیں... ! !

اتنا فرمانے کے بعد خواجہ حُضُور رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ پر رِقّت طاری ہو گئی آپ زار و قطار روئے ، پھر فرمایا : اُس ذات کی قسم ! جس کے قبضے میں میری جان ہے ! اُس دِن سے لے کر آج تک مجھ پر موت اور قبر کی ہیبت طاری ہے اور میں اندر ہی اندر گھلتا جا رہا ہوں۔ ( [1] )

شیخِ طریقت ، امیرِ اہلسنّت حضرت علّامہ مولانامحمد الیاس عطّار قادری رضوی دَامَت بَرَکاتُہم العالیہ


 

 



[1]...ہشت بہشت ، دلیل العارفین ، صفحہ : 16 -17 ملتقطًا وبتغیر قلیل ۔