Book Name:Ahl e Jannat Aur Ahl e Jahannum Ka Mukalma

جائے تو ہم صحیح معنوں میں مسلمان ہو جائیں، ہمارے اُٹھنے بیٹھنے،چلنے پھرنے، زندگی گزارنے کا انداز بالکل ہی بدل جائے کیونکہ قیامت کا تصور بندھ جانے سے دِل نَرْم پڑتا ہے، گُنَاہوں سے نفرت ہوتی ہے اور نیکیوں کی رغبت نصیب ہوتی ہے، اسی لئے بزرگانِ دین نے روزانہ کچھ وقت موت اور قبر وآخرت کے متعلق غور وفکر کرنے کی نصیحت فرمائی ہے، حدیثِ پاک میں ایسی ہی فِکْر کے متعلق ارشاد ہوا: لمحہ بھر غوروفکر کرنا پُوری رات قیام کرنے سے بہتر ہے۔

حضرت ابراہیم تیمی رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کےمتعلق منقول ہے کہ ایک روز آپ نے تصور باندھا کہ آپ جہنّم میں ہیں اور آگ کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے،تھوہر(یعنی زہریلا کانٹے دار درخت)کھا رہے ہیں اور دوزخیوں کا پیپ پی رہے ہیں، اس تصور کے بعد آپ نے خود سے پوچھا: بتا تجھے کیا چاہیے (جہنّم کا عذاب یا اس سےنجات)؟ نفس بولا: (نجات چاہئے، اسی لئے) میں چاہتا ہوں کہ دُنیا میں واپس چلا جاؤں اور ایسے عمل کروں جس کی وجہ سے مجھے دوزخ سے نجات مل جائے۔ اس کے بعد آپ نے یہ تصور باندھا کہ جیسے آپ جنت میں ہیں، وہاں کے پھل کھا رہے ہیں، جنتی نہروں کے مشروب پی رہے ہیں،یہ تصور باندھنے کے بعد آپ نے خود سے پوچھا:اے نفس! تجھے کس چیزکی خواہش ہے (جنت کی یا دوزخ کی)؟ نفس نے کہا: (مجھے جنت کی خواہش ہے،اسی لئے) میں چاہتا ہوں کہ دُنیا میں جا کر نیک عمل کر کے آؤں تاکہ جنت کی خوب نعمتیں پاؤں۔ اس کے بعد آپ نے خود سے فرمایا: اے نفس!فی الحال تجھے مہلت ملی ہوئی ہے (یعنی ابھی تم دُنیا ہی میں ہو،نیک اعمال کر کے جنت کی تیاری کرو)۔([1])


 

 



[1]...حلیۃالاولیاء، یزید بن شریک التیمی، جلد:4، صفحہ:235، رقم:3561۔