Book Name:Maut Ke Qasid
پاس تواس کی بھی ضَمانت نہیں کہ ایک کے بعد دوسرا سانس بھی لے سکیں گے یا نہیں؟ عین ممکن ہے کہ جو سانس ہم لے رہے ہیں وہی آخری ہو دوسرا سانس لینے کی نوبت ہی نہ آئے! آئے دن یہ خبریں ہمیں سُننے کو ملتی ہیں کہ فُلاں شخص بالکل ٹھیک ٹھاک تھا ، بظاہر اسے کوئی مَرض بھی نہ تھا ،لیکن اچانک ہارٹ فیل ہوجانے کی وجہ سے چندہی لمحوں میں موت کے گھاٹ اُترگیا، لہٰذا بےجا خواہشات اور لمبی اُمیدوں کے بجائے ہر وَقْت اپنی موت کو یاد رکھنا چاہیے۔
صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد
حضرت عبدُاللہ بن محمدقرشیرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہفرماتے ہیں:” کسی شہر میں ایک بہت دولت مندنوجوان رہتا تھا ۔ اسے ہر طرح کی دُنیوِی نعمتیں مُیسّر تھیں ۔اس کے پاس ایک اِنتہائی حَسِین وجَمِیل لونڈی تھی جس سے وہ بہت زیادہ مَحَبَّت کرتا تھا۔ خُوب عیش وعِشرت میں اس کے دن رات گزر رہے تھے ، اسے ہرطرح کی دُنیوِی نِعمَتیں مُیسر تھیں لیکن وہ اَولاد کی نعمت سے محروم تھا، اس کی بڑی خواہش تھی کہ اس کی اَولادہو۔ کافی عرصہ تک اسے یہ خُوشی نصیب نہ ہوسکی پھر اللہ پاک کے فضل وکرم سے وہ لونڈی اُمید سے ہُوئی۔ اب تو اس مالدار نوجوان کی خُوشی کی اِنتِہانہ رہی، وہ خُوشی سے پُھولے نہ سَماتا تھا، اِنتِظار کی گھڑیاں اس کے لئے بہت صبر آزما تھیں بالآخر وہ وقت قریب آگیا جس کا اُسے شِدَّت سے اِنتظار تھا لیکن ہوتا وہی ہے جو اللہ پاک چاہتاہے ۔ اچانک وہ مالدار نوجوان بیمارہوگیا اورکچھ ہی دنوں بعد اَولاد کے دیدار کی حسرت دل ہی میں لئے اس بے وَفا دُنیا سے کُوچ کر گیا۔ جس رات اس نوجوان کا انتقال ہوا اسی رات اس کا خوبصورت سا بچہ پیدا ہوا لیکن باپ اپنے بچے کو نہ دیکھ سکا۔ (عیون الحکایات ج ۱ص۱۹۶)