Book Name:Alfaz Ki Taseer Main Lehjay Ka Kirdar
سے وسط ایشیا کی خونخوار تاتاری سلطنت اسلامی حکومت سے بدل گئی ۔ اللہ پاک کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو۔ ([1])
پیارے اسلامی بھائیو! اگر تگودار کے تیکھے جملے پروہ بُزُرگ رحمۃُ اللہِ علیہ غصّے میں آجاتے تو ہر گز ایسے مفید نتائج حاصل نہ ہوتے۔ ایک مبلغ کو بھی ایسا ہی ہونا چاہئے کہ جب وہ نیکی کی دعوت دے رہا ہو ، اچھائی کی طرف بُلارہا ہو یا برائی سے منع کررہا ہو تو کوئی کتنا ہی غصے دلانے والی بات کرے ، وہ اپنی زبان قابو میں رکھے کہ میٹھی زبان ہی کی بدولت آپ کسی کا دل نرم کرسکتے اور اپنی بات اس کے دل میں اُتار سکتے ہیں ۔
ہے فلاح وکامرانی نرمی وآسانی میں ہر بنا کام بگڑ جاتا ہے نادانی میں
پیارے اسلامی بھائیو ! کس سے ، کس وقت اور کس انداز میں کیا گفتگو کرنی ہے ؟ یہ گُر سیکھنے سے آتا ہے۔ کیونکہ بسااوقات انسان ایسا خوبصورت کلام کرتا ہے جو سامنے والے کے دل کو موہ (جیت)لیتا ہے اور کبھی ایسی بات کہہ دیتا ہے ،جس سے مخاطب کا دل گھائل (زخمی) ہوجاتا ہے اور بات کہنے والے کو محسوس تک نہیں ہوتا ۔
امیر اہلسنت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ فرماتے ہیں : ہمیں بات کرنے کی بھی تربیت لینی ہوگی اور اس کی احتیاطیں بھی سیکھنی ہوں گی، جی ہاں اندازِ گفتگو کو یکسر بدل کر اِس پر عاجزی و نرمی کا پانی چٹرھانا اور حسنِ اخلاق سے آراستہ کرنا ہوگا ۔ یقین مانئے آج ہماری غالب اکثریت کو شریعت و سنت کے مطابق بات چیت کرنا ہی نہیں آتی، معمولی سا خلاف مزاج معاملہ ہوتے ہی اچھا خاصا مذہبی وضع قطع کا آدمی بھی ایک دم جارحانہ انداز پر اتر آتا ہے !