حُسنِ ظن رکھئے

دل اور دِماغ انسانی جِسْم کے اہم اَعضاء ہیں۔ دل انسانی جسم کیلئے بادشاہ ہے اور دماغ اس بادشاہ کیلئے وزیر و مُشیر کے مرتبے پر ہے۔ کسی بھی واقعے کی تصدیق یا تَردِید کی تحریک دماغ سے ہی پیدا ہوتی ہے۔ کبھی کبھی تو یہ تحریک اتنی زبردست ہوتی ہے کہ دل بھی دماغ کی تائید کر بیٹھتا ہے۔ ایسے میں دماغ سے دُرست اور مُثبَت (Positive) خیالات کا پیدا ہونا ضروری ہے ورنہ گناہوں کا نہ رُکنے والا سلسلہ بھی شروع ہو سکتا ہے۔ قربان جائیے اسلامی تعلیمات پر جو دماغ کو ہمیشہ مُثبَت سوچنے یعنی حُسنِ ظن کی پابند بناتی اور بُری سوچ یعنی بَدگُمانی سے بچنے کی تاکید فرماتی ہیں۔ غور کیجئے کہ حُسنِ ظن میں انسان کو کچھ عمل نہیں کرنا پڑتا صرف اپنی سوچ کو مُثبَت سَمْت میں ڈھالنا ہوتا ہے  یوں وہ بغیر کچھ عمل کئے اپنے رب سے اَجر و ثواب کا مستحق بن جاتا ہے۔ حُسنِ ظن کی فضیلت پر دو احادیثِ مبارَکہ ملاحظہ فرمائیے :

 (1)بےشک حُسنِ ظن رکھنا ایمان کا حصہ ہے۔ ([i])

 (2)حُسنِ ظن ایک اچھی عبادت ہے۔ ([ii])

حُسنِ ظن کی تعریف و حکم: کسی مسلمان کے بارے میں اچّھا گمان رکھنا “ حُسنِ ظن “ کہلاتا ہے۔ حُسنِ ظن کبھی تو وَاجب ہوتاہے جیسے اللہ کے ساتھ اچّھا گمان رکھنا اور کبھی مستحب جیسے کسی نیک مؤمن کے ساتھ نیک گمان کرنا۔ حسنِ ظن نہ رکھنے کا مطلب ہے بدگمانی کرنا اور قراٰنِ پاک کی سورۂ حُجُرات میں بَدگُمانی سے بچنے کا واضح حکم دیا گیا ہے۔

اسلام اور حُسنِ ظن:اسلام میں بَدگُمانی حرام اور حُسنِ ظن عبادت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بَدگُمانی انسان کی ذاتی زندگی کے ساتھ معاشرے میں اجتماعی زندگی کے بگاڑ کا بھی سبب بنتی ہے۔ جس شخص کےد ل میں بدگمانی بیٹھ جائے اب وہ صلح صفائی کے تمام امکانات کو ختم کر دیتا ہے ، اسے سچ جھوٹ لگتا ہے اور وہ حقیقت کو دھوکے کی خوشنما تصویر سمجھتا ہے۔ ایسے خیالات معاشرے کی اجتماعیت کو خراب کرتے ہیں۔ اپنے مسلمان بھائی کے بارے میں ہمیشہ حُسنِ ظن  سے کام لینا اسلام کی وہ تعلیم ہے جو معاشرے میں اَمْن و سکون ، ایک دوسرے کے حقوق کی پاسداری اور باہمی عزت و تکریم میں اضافے کا سبب ہے۔

 حُسنِ ظن! آخر کب تک؟ کہاں تک حُسنِ ظن قائم کیا جائے اس کے متعلق امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : کسی کے منہ سے شراب کی بُو آ رہی ہو تو اس کو حَد لگا نا (یعنی شرعی سزا دینا) جائز نہیں کیو نکہ ممکن ہے اس نے شراب کا گھونٹ بھرا ہو پھر اسے پھینک دیا ہو ، پیا نہ ہو یا اسے زبردستی پینے پر مجبور کیا گیا ہو۔ چونکہ یہاں یقینی طور پر احتمال پایا جارہا ہے لہٰذا(جب تک وہ خود اقرار جرم نہ کرے یا گواہوں سے ثابت نہ ہواس وقت تک) دل کے ساتھ تصدیق کرنا اور اس کے سبب مسلمان کے ساتھ بُرا گمان رکھنا جائز نہیں۔ ([iii])

غور کیجئے! اسلام ہمیں مسلمان کی عزت کی حفاظت کی کیسی تاکید کررہا ہے کہ ایک شَخْص جو ہمارے سامنے موجود ہے ، منہ سے شراب کی بُو آرہی ہے لیکن پھر بھی اس کے ساتھ حُسنِ ظن قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ پینا تو دُور ہم اگر کسی کو شراب خانے کے پاس سے گزرتا دیکھ لیں تو اسے شرابی قرار دے کر ہی دَم لیتے ہیں۔ کسی معاملے میں بعض اوقات خوش گُمانی کے کئی پہلو سامنے ہی ہوتےہیں لیکن ہمیں دُور کی سُوجھتی ہے اور ہم خود کو کھینچ تان کے بَدگُمانی کے تالاب میں غوطے دے ہی دیتے ہیں۔ بعد میں اس پرافسوس کرتے ہیں کہ کسی مسلمان کے بارے میں بدگمانی کیوں کی ، حالانکہ اس موقع پر ہمیں غورکرناچاہئے کہ کہیں یہ بدگمانی ہمیں نیکی کے نور سے محروم کر کے گناہ کی دَلْدَل میں نہ پھنسادے۔

حُسنِ ظن کے فوائد: یاد رکھئے! حُسنِ ظن میں کوئی نقصان نہیں ہے اور بدگمانی میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔ لہٰذا ہمیشہ حُسنِ ظن سے کام لیجئے۔ اس سے بُغض ،  کینہ ، حَسد ، دشمنی اور عَداوت دور ہونے کے ساتھ سکونِ قلب اور دوسروں کی عزت کی حفاظت ہوتی ہے۔ لہٰذا دوسروں کی خوبیوں پر نظر رکھئے ، حُسنِ ظن کے مواقع تلاش کیجئے۔ اللہ کریم ہم سب کو مسلمانوں سے حُسنِ ظن رکھنے کی دولت سے مالا مال فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم 

 

نماز کی حاضری

 “ ماہنامہ فیضانِ مدینہ “ شعبان المعظم 1441ھ کے سلسلہ “ نماز کی حاضری “ میں بذریعہ قرعہ اندازی ان تین خوش نصیبوں کے نام نکلے : “ بنت سرتاج خان (كراچی) ، ایان عبدالرحمٰن (لاہور) ، عبید ارشد عطاری (بہاولپور) “ انہیں “ چیک “ روانہ کر دئیے گئے ہیں۔

نماز کی حاضری بھیجنے والوں میں سے منتخب نام

(1)مکی عطاری (حیدر آباد) ، (2)منیب عبد الوہاب (کراچی) ، (3)بنت فیض علی (لاہور) ، (4)بنت اکرم (کراچی)

 

 

 

 

 

 



([i])    تفسیر روح البیان ، 9 / 84

([ii])    ابوداؤد ، 4 / 388 ، حدیث : 4993

([iii])    احیاء العلوم ،  3 / 456 ملخصاً


Share