تواضُع اور عاجزی

اسلام کی روشن تعلیمات

تواضع اور عاجزی

*مولانا سید بہرام حسین عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ اپریل 2025

اسلام کی روشن تعلیمات کا ایک بہت ہی حسین پہلو عاجزی اختیار کرنا ہے۔ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو تواضع اور عاجزی کی تعلیم دی ہے، یہ ایسا وصف ہے کہ جو  انسان کو انسانوں اور دیگر جانداروں  کا خیال رکھنے، ان کے ساتھ مناسب انداز میں پیش آنے اور ان کے دکھ درد میں شامل ہونے پر ابھارتاہے۔ اس وصف کو قراٰن و حدیث میں جس انداز میں بیان کیا  گیا ہے اس کا خلاصہ ملاحظہ کیجیے ، چنانچہ

اللہ پاک نے قراٰنِ کریم میں اِرشاد فرمایا:

(وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا)

ترجَمۂ کنزالایمان:اور رَحمٰن کے وہ بندے کہ زمین پر آہستہ چلتے ہیں۔ ([1])

ایک اور مقام پر اِرشاد فرمایا:

(وَ بَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَۙ(۳۴) الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ الصّٰبِرِیْنَ عَلٰى مَاۤ اَصَابَهُمْ وَ الْمُقِیْمِی الصَّلٰوةِۙ-وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ(۳۵))

ترجَمۂ کنزالایمان: اور اے محبوب خوشی سنا دو ان تواضع والوں کو کہ جب اللہ کا ذِکر ہوتا ہے ان کے دِل ڈرنے لگتے ہیں اور جو افتاد پڑے اس کے سہنے والے اور نماز برپا رکھنے والے اور ہمارے دئیے سے خرچ کرتے ہیں ۔([2])

اِن آیاتِ مقدسہ میں اللہ پاک نے اپنے کامل الایمان بندوں کے ایک خاص وَصف ”عاجزی و اِنکساری“ کا بھی ذِکر فرمایا کہ وہ زمین پر اِطمینان اور وقار کے ساتھ، عاجزانہ شان سے چلتے ہیں اور پھر ان تواضع کرنے والوں کو خوشی کا مژدۂ جانفزا سنایا گیا۔ معلوم ہوا کہ عاجزی و اِنکساری اِختیار کرنا اور عاجزانہ چال چلنا اللہ پاک کے نیک بندوں کا طریقہ ہے جبکہ متکبرانہ طور پر جوتے کھٹکھٹاتے،پاؤں زور سے مارتے اور اِتراتے ہوئے چلنا متکبرین کا طریقہ ہے جس سے اللہ پاک نے منع فرمایا ہے چنانچہ اللہ پاک اِرشاد فرماتا ہے:

(وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًاۚ-اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَ لَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا(۳۷))

ترجَمۂ کنزالایمان:اور زمین میں اِتراتا نہ چل بیشک تو ہر گز زمین نہ چیر ڈالے گا اور ہرگز بلندی میں پہاڑوں کو نہ پہنچے گا۔([3])

یاد رَکھیے! اپنے آپ کو بڑا سمجھنے،غرور و تکبر کرنے اور اِترا کر چلنے سے اِنسان کی شان بلند نہیں ہو جاتی اور نہ ہی مال و اَولاد کی کثرت اور قوم قبیلے کے زیادہ ہونے سے عزت و عظمت اور شان و شوکت میں اِضافہ ہوتا ہے۔ عزت و عظمت،شان و شوکت اور بلندی اُسے ملتی ہے جسے اللہ پاک عطا فرماتا ہے اور اللہ پاک اُسے عطا فرماتا ہے جو عاجزی و اِنکساری کرتا ہے جیسا کہ حدیثِ پاک میں ہے: مَنْ تَوَاضَعَ لِلّٰہِ رَفَعَہُ اللّٰہُ یعنی جو اللہ پاک کے لئے عاجزی کرتا ہے اللہ پاک اُسے بلندی عطا فرماتا ہے۔ ([4])

اللہ پاک نے عاجزی کرنے کا حکم دیا اور فخر کرنے سے منع فرمایا۔رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا:اللہ پاک نے میری طرف یہ وحی فرمائی ہے کہ تم لوگ عاجزی اِختیار کرو اور تم میں سے کوئی دوسرے پر فخر نہ کرے۔([5])

اللہ پاک عاجزی کرنے والوں کو پسند اور تکبر کرنے والوں کو ناپسند فرماتا ہے۔ حضورِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا: اے عائشہ! عاجزی اپناؤ کہ اللہ پاک عاجزی کرنے والوں سے محبت اور تکبر کرنے والوں کو ناپسند فرماتا ہے۔ ([6])

اللہ پاک عاجزی کرنے والوں کو بلند اور تکبرکرنے والوں کو پَست فرماتا ہے۔ رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا: جو اپنے مسلمان بھائی کے لئے تواضع اِختیار کرتا ہے اللہ پاک اُسے بلندی عطا فرماتا ہے اور جو مسلمان بھائی پر بلندی چاہتا ہے اللہ پاک اُسے پستی میں ڈال دیتا ہے۔([7])

 اللہ پاک نے ہر پہاڑ کی طرف یہ وحی کی کہ حضرت نوح علیٰ نبینا و علیہ الصّلوٰۃ والسَّلام کی کشتی کسی ایک پہاڑ پر ٹھہرے گی تو تمام پہاڑوں نے تکبر کیا، لیکن ”جُودی“پہاڑ نے تواضع اور عاجزی کا اِظہار کیا تو اللہ پاک نے اُسے یہ شرف بخشا کہ حضرت نوح علیہ السّلام کی کشتی ”جُودی“ پہاڑ پر ٹھہری۔([8])حضرت سیدنا مجاہد  رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اللہ پاک نے جودی پہاڑ کو سَفینۂ نوح کے ساتھ خاص فرمایا کیونکہ یہ دوسروں سے زیادہ عجز کا اِظہار کرتا تھا اور حرا پہاڑ کو اپنے محبوب  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی عبادت کے ساتھ خاص فرمایا کہ یہ دوسرے پہاڑوں سے زیادہ تواضع کرتا تھا اور اللہ پاک نے اپنے محبوب  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قَلبِ اَطہر کو دِیگر مخلوق سے ممتاز فرمایا کیونکہ یہ عجز و اِنکساری میں ان پر فوقیت رکھتا تھا۔([9])

عاجزی و اِنکساری کرنے کے اَحادیثِ مبارکہ میں جہاں دِیگر بیشمار فضائل و برکات بیان ہوئے ہیں وہاں اسے افضل عبادت بھی فرمایا گیا ہے چنانچہ حضورِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:اَفْضَلُ الْعِبَادَۃِ التَّوَاضُع یعنی افضل عبادت تواضع ہے۔([10]) جو جتنی زیادہ عاجزی و اِنکساری کرے گا وہ اتنا ہی زیادہ اللہ پاک کا مقرب بنے گا۔ حضرت علامہ علی قاری  رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:جو شخص مسلمانوں کے ساتھ جتنا زیادہ عاجزی اور اِنکساری سے پیش آئے گا وہ اتنا ہی زیادہ مقرب بندوں کے اعلیٰ مَراتب پر فائز ہو گا اور جو جتنا زیادہ تکبر اور ظلم کرے گا وہ اتنا ہی زیادہ پَست مقام پر ہو گا۔([11])

اِسی عاجزی و اِنکساری نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو کلیم اللہ بنا دیا۔ اللہ پاک نے حضرت سیِّدُنا موسیٰ علیہ السّلام سے اِرشاد فرمایا:کیا تم جانتے ہو کہ میں نے کلام کے لئے تمام لوگوں میں سے تمہیں خاص کیوں کیا؟انہوں نے عرض کی:اے میرے رَب!مجھے نہیں معلوم۔اِرشاد فرمایا: اِس لئے کہ میں نے تمہیں اپنے سامنے عاجزی کرتے ہوئے دیکھا ہے۔([12])

مٹی میں عاجزی و اِنکساری ہوتی ہے آگ میں تکبر،باغ مٹی میں ہی لگتے ہیں نہ کہ آگ میں۔پھر جو دَرخت جتنا زیادہ پھلدار ہوتا ہے اتنا ہی اُس کی شاخیں زمین کی طرف جُھکی ہوئی ہوتی ہیں،اِسی طرح جو اِنسان جتنا زیادہ باکمال اور اعلیٰ صِفات کا حامل ہوتا ہے اسی قدر اس میں عاجزی و اِنکساری زیادہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے بزرگانِ دِین بلند و بالا شانوں کے مالک ہونے کے باوجود عاجزی و اِنکساری کے پیکر ہوتے، اپنے آپ کو گناہ گار اور کمزور سمجھتے تھے، جیسا کہ حضرت خواجہ شیخ بہاؤ الحق والدین رضی اللہُ عنہ جو کہ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے امام ہیں۔  آپ سے کسی نے عرض کی کہ حضرت تمام اَولیا سے کرامتیں ظاہر ہوتی ہیں،حضور سے بھی کوئی کرامت دیکھیں! فرمایا:اِس سے بڑی اور کیا کرامت ہے کہ اتنا بڑا بھاری بوجھ گناہو ں کا سر پر ہے اور زمین میں دھنس نہیں جاتا۔ ([13])

حضرت سیِّدُنا امام مجدّدِ اَلف ثانی  رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: ایک دِن میں اپنے رُفقا کے ساتھ بیٹھا اپنی کمزوریوں پر غور و فکر کر رہا تھا، عاجزی و اِنکساری کا غلبہ تھا۔اِسی دَوران بمصداقِ حدیث: مَنْ تَوَاضَعَ لِلّٰہِ رَفَعَہُ اللّٰہُ (یعنی جو اللہ پاک کے لئے اِنکساری کرتا ہے اللہ پاک اسے بلندی عطا فرماتا ہے)اللہ پاک کی طرف سے خطاب ہوا: غَفَرْتُ لَکَ وَلِمَنْ تَوَسَّلَ بِکَ بِوَاسِطَۃٍ اَوْ بِغَیْرِ وَاسِطَۃٍ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃ یعنی میں نے تم کو بخش دیا اور قیامت تک پیدا ہونے والے ان تمام لوگوں کو بھی بخش دیا جو تیرے وسیلے سے بالواسطہ یا بلاواسطہ مجھ تک پہنچیں۔([14])

اللہ پاک ہمیں بھی اپنی رضا کے لئے عاجزی و اِنکساری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* رکن مجلس المدینۃ العلمیہ، ذمہ دار شعبہ خلیفہ امیراہلسنت



([1])پ19،الفرقان:63

([2])پ 17،الحج:34، 35

([3])پ15،بنٓی اسرآءیل:37

([4])شعب الایمان، 6/ 274، حدیث:8140

([5])ابن ماجہ،4/459، حدیث: 4179

([6])کنزالعمال،جز:3، 2/50،حدیث:5731

([7])معجم اوسط،5/ 390، حدیث:7711

([8])تفسیر صاوی،پ 12،ھود، تحت الآیۃ:44،ص915

([9])الزواجر عن اقتراف الکبائر،1/164

([10])شعب الایمان، 6/ 278، حدیث:8148

([11])مرقاۃ المفاتیح،8 / 827، تحت الحدیث : 5106

([12])المستطرف، 1/225

([13])ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت،ص 443

([14])حَضَراتُ القُدْس،دفتر دُوُم،ص 114ملخصاً


Share