نصیحت

اسلام کی روشن تعلیمات

نصیحت

*سید بہرام حسین عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ مارچ 2025

اسلام کی روشن تعلیمات کا ایک انتہائی حسین پہلو دوسرے کا بھلا چاہنا اور اسے ممکنہ نقصان سے بچانے کی سعی کرنا بھی ہے، چونکہ ہم اللہ رَبُّ العزّت کی مخلوق ہیں اور اسی کے حکم کے پابند ہیں تو اس نے اس دنیا کو ہمارے لئے دارالعمل بنایا اور آخرت کو دارالجزاء۔ چنانچہ جو دنیا میں برے عمل کرے گا تو آخرت میں سزا کا حق دار ٹھہرے گا، اسلام نے ایسے میں ہمیں تعلیم دی ہے کہ اپنے دوستوں، ہمسایوں، ماتحتوں بلکہ اجنبیوں کو بھی نصیحت کریں اور انہیں اچھے عمل کی دعوت دیں اور برائی سے منع کریں۔ صرف یہی نہیں بلکہ نصیحت کے انداز و اسلوب کی بھی تربیت کی ہے چنانچہ اللہ پاک نے قراٰنِ کریم میں اِرشاد فرمایا:

(اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ)

ترجَمۂ کنزالایمان:اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکی تدبیر اور اچھی نصیحت سے۔ ([1])

ایک اور مقام پر اِرشاد فرمایا:

(فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ وَ عِظْهُمْ وَ قُلْ لَّهُمْ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ قَوْلًۢا بَلِیْغًا(۶۳))

ترجَمۂ کنز الایمان: تو تم اُن سے چشم پوشی کرو اور انہیں سمجھاؤ اور ان کے معاملہ میں اُن سے رسا (اثر کرنے والی) بات کہو۔([2])

اِن آیاتِ بینات میں اللہ پاک نے اپنے پیارے محبوب  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو اپنی راہ کی طرف بلانے،سمجھانے اور نصیحت کرنے کا حکم اِرشاد فرمایا۔ نصیحت کرنا جہاں ہمارے پیارے آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی سنَّت ہے وہیں دیگر انبیائے کِرام  علیہمُ الصّلوٰۃ ُوالسّلام  کی بھی سنَّت ہے۔قراٰنِ کریم میں کئی مقامات پر انبیائے کِرام  علیہمُ الصّلوٰۃ ُوالسّلام  کا اپنی اپنی اُمَّتوں کو نصیحت کرنے کا ذِکر ملتا ہے جیسا کہ حضرت نوح  علیہ الصّلوٰۃُ والسّلام  نے اپنی قوم سے فرمایا:

(اُبَلِّغُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ اَنْصَحُ لَكُمْ وَ اَعْلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۶۲))

ترجَمۂ کنز الایمان:تمہیں اپنے رب کی رِسالتیں پہنچاتا اور تمہارا بھلا چاہتا اور میں اللہ کی طرف سے وہ علم رکھتا ہوں جو تم نہیں رکھتے۔([3])

حضرت ہود  علیہ الصّلوٰۃُ والسّلام نے اپنی قوم سے فرمایا:

(اُبَلِّغُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ اَنَا لَكُمْ نَاصِحٌ اَمِیْنٌ(۶۸))

ترجَمۂ کنزالایمان: تمہیں اپنے رَب کی رِسالتیں پہنچاتا ہوں اور تمہارا مُعْتَمَد خیر خواہ ہوں۔([4])

حضرت صالح  علیہ الصّلوٰۃُ والسّلام نے اپنی قوم سے فرمایا:

(یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَكُمْ وَ لٰكِنْ لَّا تُحِبُّوْنَ النّٰصِحِیْنَ(۷۹))

ترجَمۂ کنز الایمان: اے میری قوم بےشک میں نے تمہیں اپنے رب کی رِسالت پہنچا دی اور تمہارا بھلا چاہا مگر تم خَیرخواہوں کے غرضی (پسند کرنے والے) ہی نہیں۔([5])

حضرت لقمان حکیم  رحمۃُ اللہِ علیہ  کے قول کی حکایت بیان کرتے ہوئے اللہ پاک نے قراٰنِ کریم میں اِرشاد فرمایا:

(وَ اِذْ قَالَ لُقْمٰنُ لِابْنِهٖ وَ هُوَ یَعِظُهٗ یٰبُنَیَّ لَا تُشْرِكْ بِاللّٰهِﳳ-اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ(۱۳))

ترجَمۂ کنزالایمان:اور یاد کرو جب لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا اور وہ نصیحت کرتا تھا اے میرے بیٹے الله کا کسی کو شریک نہ کرنا بیشک شرک بڑا ظلم ہے۔([6])

اِس آیت سے چند مسئلے معلوم ہوئے:ایک یہ کہ اِنسان پہلے اپنے گھر والوں کو وعظ و نصیحت کرے پھر دوسروں کو۔ دوسرا یہ کہ نصیحت نرم الفاظ میں ہونی چاہئے جیسا کہ حضرت لقمان  رحمۃُ اللہِ علیہ  نے اپنے بیٹے سے اے میرے بیٹے فرما کر خطاب فرمایا۔ تیسرا یہ کہ اَعمال کی اِصلاح سے پہلے عقائد کی دُرُستی کی جائے جیسا کہ آپ  رحمۃُ اللہِ علیہ  نے اپنے فرزند کو پہلے یہ نصیحت کی کہ شرک نہ کرنا۔ چوتھا یہ کہ گزشتہ بزرگوں کی تعلیم یاد دِلانا اور ان کے اَقوال نقل کرنا سنَّتِ اِلٰہیہ ہے۔([7])معلوم ہوا کہ نصیحت کرنا اَنبیائے کِرام  علیہمُ الصلوٰۃ والسّلام  اور صالحین کا طریقہ کار ہے۔

نصیحت کرنا مسلمان کا حق ہے۔ حدیثِ پاک میں ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر جو حقوق بیان فرمائے گئے ان میں سے ایک یہ بھی ہے: وَاِذَا اسْتَنْصَحَكَ فَانْصَحْ لَهٗ جب تم سے نصیحت طَلَب کرے تو اسے نصیحت کرو۔([8])اِس حدیثِ پاک کے تحت حضرت شیخ عبد الحق مُحدِّث دہلوی  رحمۃُ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں: نصیحت عام حالات میں سنَّت ہے مگر جب کوئی نصیحت کی بات سننے کی خواہش ظاہِر کرے تو پھر اسے نصیحت کرنا واجِب و ضَروری ہے۔([9])

نصیحت وہ کلام ہے جو راہ ِدین میں ناروا اور نامُناسِب باتوں سے روکنے کا فائدہ دے۔([10])نصیحت کی ہر ایک کو حاجت ہوتی ہے اور نصیحت زندگی میں بہتری لانے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ بسااوقات نصیحت تاثیر کا ایسا تیر بن کر دِلوں میں پیوست ہو جاتی ہے جس سے پتھر دِل بھی پگھل کر موم ہو جاتے ہیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب نصیحت کرنے والے کے دِل میں سامنے والے کی ہمدردی کا جذبہ ہو اور اس کا نصیحت کرنے کا اَنداز بھی اِنتہائی مشفقانہ اور حکیمانہ ہو۔ حکمتِ عملی اور نرمی کے ساتھ کی جانے والی نصیحت ضرور فائدہ دیتی ہے جیسا کہ اللہ پاک کا فرمانِ عالیشان ہے:

(وَ ذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ(۵۵))

ترجَمۂ کنزالایمان: اور سمجھاؤ کہ سمجھانا مسلمانوں کو فائدہ دیتا ہے۔([11])

اِس آیتِ کریمہ میں جہاں سمجھانے اور وَعظ و نصیحت کرنے کا ذِکر ہے وہیں اِس کے مُؤثر ہونے کا بھی ذِکر ہے کہ سمجھانا مسلمانوں کو فائدہ دیتا ہے۔

ناصح کو چاہئے کہ وہ جس کو نصیحت کرنا چاہتا ہے اسے سب کے سامنے نہ سمجھائے کہ اِس سے جہاں اُس کی دِل آزاری ہو سکتی ہے وہیں نصیحت کے بے اثر ہو جانے کا بھی قوی اِمکان ہے،لہٰذا موقع پاکر تنہائی میں سمجھائے۔حضرتِ اُمِّ دَرداء  رضی اللہُ عنہا  فرماتی ہیں: جس نے اپنے بھائی کو اِعلانیہ نصیحت کی اُس نے اُسے عیب لگایا اور جس نے چپکے سے کی تو اُسے زینت بخشی۔([12])

یاد رکھئے! تنہائی میں سمجھانا نصیحت اور سب کے سامنے سمجھانا فضیحت یعنی رُسوا کرنا کہلاتا ہے حضرت شیخ ابو طالِب مکی  رحمۃُ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں:سَلَف صالحین  رحمۃُ اللہِ علیہ م کا طریقہ یہ تھا کہ جب وہ کسی کی کوئی ناپسندیدہ حرکت دیکھتے تو تنہائی میں اسے سمجھاتے یا اِس حوالے سے اُسے مکتوب لکھتے، کیونکہ نصیحت و فضیحت میں یہی فرق ہے یعنی ناپسندیدہ بات پر تنہائی میں سمجھانا نصیحت اور سب کے سامنے سمجھانا فضیحت کہلاتا ہے اور ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے کہ لوگوں کے سامنے کسی کو سمجھاتے ہوئے رَضائے الٰہی کی نِیَّت بھی دُرُست ہو، کیونکہ یہ اِنتہائی بُرا طریقہ ہے۔([13])

نصیحت کرنا اگرچہ سنَّت اور کارِثواب ہے مگر نصیحت کرنے میں بطورِ خاص اِس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ اِس سے کسی مسلمان کی تَذلیل وتحقیر نہ ہو اور نہ ہی اسے کسی گناہ پر شرم و عار دِلائی جائے جس سے اسے ندامت و شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے۔ حضرت فضیل بن عِیاض  رحمۃُ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں:مومِن پردہ پوشی اور نصیحت کرتا ہے جبکہ فاسِق و فاجِر بدنام کرتا اور شَرْم و عار دِلاتا ہے۔([14])

 نصیحت کرنا آسان ہے،مگر اسے قبول کرنا بہت مشکل کام ہے لہٰذا نصیحت کرنے والا باعمل ہو اور جس بات کی نصیحت کر رہا ہے خود بھی اُس پر عمل پیرا ہو تاکہ اس کی زبان میں تاثیر پیدا ہو۔ حضرت مالک بن دینار  رحمۃُ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں: جب عالِم اپنے علم پر عمل نہ کرے تو اس کی نصیحت لوگوں کے دِلوں سے ایسے پھسلتی ہے جیسے صاف پتھر سے پانی کا قطرہ پھسل جاتا ہے۔([15])

اللہ پاک ہمیں اچھی نصیحت کرنے اور اسے قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ذمہ دار شعبہ مدنی مذاکرہ المدینۃ العلمیہ کراچی



([1])پ14، النحل:125

([2])پ5، النسآء:63

([3])پ8،الاعراف:62

([4])پ8، الاعراف: 68

([5])پ8،الاعراف:79

([6])پ 21، لقمٰن:13

([7])دیکھئے: نور العرفان، پ 21،لقمٰن،تحت الآیۃ:13

([8])مسلم،ص 919، حدیث:5651

([9])اشعۃ اللمعات، 1/673

([10])تفسیرکبیر،پ 4،اٰلِ عمرٰن،تحت الآيۃ:138، 3/370

([11])پ27،الذّٰرِیٰت:55

([12])شعب الایمان، 6/ 112،رقم:7641

([13])قوت القلوب،2/ 371

([14])جامع العلوم والحكم،ص 109

([15])الزھد للامام احمد بن حنبل،ص325،رقم :1884


Share