خوشیاں بانٹئے

دینِ اسلام ایک امن پسند،سچّا، پیارا اور کامل دین ہے۔ اس کی تمام تعلیمات انسانی فطرت(Human Nature) کے بھی مطابق ہیں اور ایک کامل اور بہترین معاشرہ بنانے کی بھی ضامن ہیں۔انہی تعلیمات میں سے ایک دل جوئی ہے۔دِل جُوئی ایک ایسا وصف ہے جو نہ صرف نظامِ حیات کی بقا کا باعث ہے بلکہ ایک خوشگوار زندگی کا بھی سبب ہے۔ دِل جُوئی ایک ایسی صفت ہے جو انسان کو اخلاقِ حَسَنہ کا خُوگر اور اَقدارِ عالیہ کا پیکر بناتی ہے۔ دِل جُوئی ایک ایسی عادت ہے جس سے انسان لوگوں کے دِلوں پر حکومت کرسکتا ہے، اس لئے اسلام نے ہمیں دوسرے مسلمانوں کے ساتھ حُسنِ اَخلاق سے پیش آنے اور ان کے دُکھ درد میں شریک ہوکر ان کی دل جُوئی کرنے کی باربار ترغیب دی ہے۔دِل جُوئی کا معنیٰ:دل جُوئی، دلداری،غم خواری، غم گُساری، یہ تمام الفاظ ہم معنیٰ ہیں، ان سب کاخلاصہ ہےدوسروں سے ہمدردی کرنا، انہیں خُوشی پہنچانا،ان کے دِلوں میں خُوشی داخل کرنا وغیرہ۔دل جُوئی پر 3 فرامینِ مصطفےٰ:(1)اللہ پاک کے نزدیک فرائض کی ادائیگی کے بعد سب سے افضل عمل مسلمان کے دل میں خوشی داخل کرنا ہے۔([1])(2)بےشک مغفرت کو واجب کر دینے والی چیزوں میں سے تیرااپنے مسلمان بھائی کا دل خوش کرنا بھی ہے۔([2]) (3)جس نے کسی مسلمان کوخوش کیا اس نے اللہکوراضی کیا۔([3]) حکایت اور درس:امامِ حَسَن رضی اللہ عنہ کچھ مَساکین کے پاس سے گُزرے جو زمین پر بِکھرے ہوئے روٹی کے بچے کھچے ٹکڑے کھا رہے تھے انہوں نے آپ سےعرض کی کہ ہمارے ساتھ کھانا کھائیے! آپ نےاُن کے ساتھ کچھ کھایا۔ جاتے ہوئے اُنہیں سلام کیا اور فرمایا: میں نے تمہاری دَعوت قبول کی، تم بھی میری دعوت قبول کرو اور اُنہیں اپنے پاس آنے کی دعوت دی۔ جب وہ آپ کے پاس آئے تو آپ نے اُنہیں عُمدہ کھانا کھلایا اور خود بھی اُن کے ساتھ کھانا کھایا۔([4])غور کیجئے! نواسَۂ رسول، امام حسن رضی اللہ عنہ باوجود بلند مَرتبہ ہونے کے ان مسکینوں، غریبوں کی دِل جُوئی کے لئے ان کے ساتھ بیٹھ گئے اور بدلے میں انہیں بھی اپنے گھر دعوت پر بُلایا اور ہمیں عملی درس دیا کہ ہمیں بھی صرف امیروں اور مالداروں کے ساتھ نہیں بلکہ غریبوں کے ساتھ بھی پیار اور اُلفت و محبت بھرا برتاؤکرنا چاہئے۔دِل جُوئی کے فوائد:شرعی اَحکام کے مطابق کی جانے والی دل جُوئی دنیا و آخرت دونوں میں بڑے بڑے فوائد سے مالامال کرتی ہے۔ مثلاً اس سے تعلقات مضبوط ہوتے، ناراضیاں ختم ہوتی اورمحبتوں میں اِضافہ ہوتا ہے، باربار کی جانے والی دِل جُوئی بیگانوں کو بھی اپنا بنا دیتی ہے،اس سے معاشرے میں خوشگوار فضا قائم ہوتی ہے۔ دل جُوئی کا عادی شخص ہر دِلعزیز بن جاتا ہے، سب سے بڑھ کر یہ کہ شرعی احکامات کے مطابق کی جانے والی دِل جُوئی کرنے والا اللہ پاک اور اس کے رسول علیہ السَّلام کی رِضا پانے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔اس لئے ہمیں دل جُوئی کی عادت(Habit) بنانی چاہئے۔ دِل جُوئی کے طریقے: مریض کی عیادت کرنا ، غمزدہ سے تعزیت کرنا، جنازےمیں شرکت کرنا، کسی مسلمان کا نقصان ہو جانے پر اس سے ہمدردی کے دو بول بولنا،وقتاً فوقتاً اپنے دوستوں اور عزیزوں سے رِضائے الٰہی اور نیکی کی دعوت کے لئے رابطہ رکھنا، مسلمان سے نرمی و بھلائی سے پیش آنا، استطاعت کے مطابق ضرورت مندوں کی مالی مددکرنا، پریشان حالوں کی پریشانی دُورکرنا، اپنے آرام و سکون کی قربانی دے کر دوسروں کو آرام و سکون مُہَیّا کرنا وغیرہ، اَلْغَرَض کسی بھی جائز طریقے سے، شرعی احکامات کے مطابق اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا یہ سب دل جُوئی میں شُمار ہوگا۔

_______________________

٭محمد منعم عطاری مدنی

٭…شعبہ بیاناتِ دعوتِ اسلامی المدینۃ العلمیہ



([1])معجم کبیر،ج 11،ص59، حدیث:11079

([2])معجم اوسط،ج 6،ص129،حدیث:8245

([3])حلیۃ الاولياء،ج3،ص66،حديث: 3188

([4])احیاء العلوم،ج2،ص17، بتغیر


Share