شرم و حیا

 دُکھ، خوشی اور غصے کے اظہار کے طریقے انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں میں بھی پائے جاتے ہیں جبکہ شَرْم و حیا ایسا وصف ہے جو صرف انسان میں پایا جاتا ہے اور یہ جانور اور انسان کے درمیان وجہِ امتیاز اور ان دونوں میں فرق کی بنیادی علامت ہے۔ اگر لب و لہجے،حرکات و سکنات اور عادات و اطوار سے شرم و حیا رخصت ہو جائے تو باقی تمام اچھائیوں پر خود بخود پانی پھر جاتا ہے اور دیگر تمام نیک اوصاف کی موجودگی کے باوجود اپنی وَقعت کھو دیتے ہیں۔ جب تک انسان شرم وحیا کے حصار (دائرے) میں رہتا ہے ذلت و رسوائی سے بچا رہتا ہے اور جب اِس قلعے کو ڈھا دیتا ہے تو پھر گھٹیا و بدترین کام بھی بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کرتا چلا جاتا ہے۔رسولِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اسی لئے ارشاد فرمایا: جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کر۔ (بخاری،ج 2،ص470، حدیث:3484) معلوم ہوا کہ کسی بھی بُرے کام سے رکنے کا ایک سبب شرم و حیا بھی ہے۔ شرم وحیا کیا ہے؟ وہ کام جو اللہ پاک اور اس کی مخلوق کے نزدیک ناپسند ہوں ان سے بچانے والے وصف کو ”شرم وحیا“ کہتے ہیں۔ (باحیا نوجوان، ص 7ماخوذاً) شرم و حیا اور اسلام اسلام اور حیا کا آپس میں وہی تعلق ہے جو روح کا جسم سے ہے۔ سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:بے شک حیا اور ایمان آپس میں ملے ہوئے ہیں، جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔(مستدرک للحاکم،ج 1،ص176، حدیث:66) اسی لئے اسلام کے دشمن مسلمانوں کی حیا پر وار کرتے نظر آتے ہیں۔ ڈراموں، فلموں، اشتہارات اور مارننگ شوز وغیرہ کے نام پر معاشرے میں شرم و حیا کے سائبان (شیڈ) میں چھید (سوراخ) کرنا کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ بے شرمی و بے حیائی تباہی لاتے ہیں یہ ایک حقیقت ہے کہ مردوں کے اخلاق و عادات بگڑنے سے معاشرہ بگڑنے لگتا ہے اور جب عورتوں میں یہ بیماری پھیل جائے تو نسلیں تباہ و برباد ہوجاتی ہیں۔ لہٰذا مرد ہو یا عورت اسلام دونوں کو حیا اپنانے کی تلقین کرتا ہے اور حیا کو تمام اخلاقیات کا سرچشمہ قرار دیتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے: بے شک ہر دین کا ایک خُلق ہے اور اسلام کا خُلق حیا ہے۔ (ابن ماجہ،ج 4،ص460، حدیث: 4181) صرف اسلام ہی ایسا مذہب ہے جو حقیقی حیا کو فَروغ دیتا ہے۔رسولِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایسی تعلیمات عطا فرمائی ہیں جن پر عمل کرنا پورے معاشرے کو حیا دار بنا سکتا ہے۔ اسلامی تعلیمات فطرتِ انسانی میں موجود شرم و حیا کی صفت کو اُبھارتی ہیں اور پھر اس میں فکر و شعور کے رنگ بھر کر اسے انسان کا خوشنما لباس بنا دیتی ہیں۔ رسولِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شرم و حیا حضرت سیّدُنا عمران بن حُصَین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مصطفےٰ جانِ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کنواری، پردَہ نشین لڑکی سے بھی زیادہ باحیا تھے۔ (معجمِ کبیر،ج 18،ص206،حدیث:508) حیا نہیں کھوئی اسی حیا پَروَر ماحول کا نتیجہ تھا کہ حضرت سیّدتُنا اُمِّ خَلاد رضی اللہ عنہا کا بیٹا جنگ میں شہید ہوگیا۔ یہ اپنے بیٹے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کیلئے نقاب ڈالے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئیں تو اس پر کسی نے حیرت سے کہا: اس وقت بھی باپردہ ہیں! کہنے لگیں: میں نے بیٹا ضرور کھویا ہے،حیا نہیں کھوئی۔(ابوداؤد، ج3،ص9، حدیث:2488 ملتقطاً) شرم و حیا بڑھائیے نورِ ایمان جتنا زیادہ ہوگا شرم و حیا بھی اسی قدر پروان چڑھے گی۔ اسی لئے آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: حیا ایمان سے ہے۔(مسند ابی یعلیٰ،ج 6،ص291، حدیث: 7463) وہ لوگ جو مخلوط محفلوں (جہاں مردوعورت میں بے پردگی ہوتی ہو)،مکمل بدن نہ ڈھانپنے والے لباس، روشن خیالی اور مادر پِدَر آزادی کو جِدّت و ترقی کا زینہ سمجھ کر انہیں فَروغ دیتے ہیں انہیں سوچنا چاہئے کہ ان میں نورِ ایمان کتنا کم ہوگیا ہے؟ حیا تو ایسا وصف ہے کہ جتنا زیادہ ہو خیر ہی بڑھاتا ہے۔ اسی لئے آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:حیا صرف خیر ہی لاتی ہے۔ (مسلم، ص40، حدیث: 37) شرم و حیا اور ہمارا معاشرہ اس میں شک نہیں کہ جیسے جیسے ہم زمانَۂ رسالت سے دور ہوتے جا رہے ہیں شرم و حیا کی روشنیاں ماڈرن،اندھی اور تاریک تہذیب کی وجہ سے بُجھتی جا رہی ہیں۔ اس منحوس تہذیب کے جراثیم مسلم معاشرے میں بھی اپنے پنجے گاڑنے لگے ہیں۔ افسوس! وہ شرم و حیا جسے اسلام مَرد و زَن کا جُھومر قرار دیتا ہے آج اس جھومر کو کَلَنک کا ٹیکا (بدنامی کا دھبّا) بتایا جا رہا ہے۔ مَحْرم و نامَحرم کا تصوّر اور شعور دے کر اسلام نے مَرد و زَن کے اِختلاط پر جو بند باندھا تھا آج اس میں چھید (سوراخ) نمایاں ہیں۔ رسولِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: خبردار کوئی شخص کسی(اجنبیہ) عورت کے ساتھ تنہائی میں نہیں ہوتا مگر اُن کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے۔(ترمذی،ج 4،ص67، حدیث: 2172) ”میڈیا کی مہربانیاں“ میڈیا جس تَواتُر سے بچّوں اور بڑوں کو بےحیائی کا درس دے رہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ قابلِ غور ہے کہ جو نسلِ نو (نئی نسل) والدین کے پہلو میں بیٹھ کر فلموں ڈراموں کے گندے اور حیا سوز مَناظر دیکھ کر پروان چڑھے گی اس میں شرم و حیا کا جوہر کیسے پیدا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ نسلِ نَو کی ایک تعداد شرم و حیا کے تصوّر سے بھی کوسوں دور دکھائی دیتی ہے۔ شرم و حیا کی چادر کو تار تار کرنے میں رہی سہی کسر انٹر نیٹ نے پوری کردی ہے۔ اس کے فوائد اپنی جگہ مگر بےحیائی اور بے شرمی کے فَروغ میں بھی انٹرنیٹ نے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ وہ واقعی ”تیزترین“ ہے۔

یاد رکھئے! اگر انسان خود شرم و حیا کے تقاضوں پر عمل پیرا ہو گا تبھی اس کی اولاد بھی ان صفات و خَصائل کی حامل ہوگی اور اگر وہ خود شرم و حیا کا خیال نہ رکھے گا تو اولاد میں بھی اس طرح کے خراب جراثیم سرایت کرجائیں گے۔ آج ضرورت اس امر (بات) کی ہے کہ حیا کو مُتأثّر کرنے والے تمام عَوامل سے دور رہا جا ئے اور اپنےتَشَخُّص اور روحِ ایمان کی حفاظت کی جائے۔

٭شرم و حیا کے بارے میں مزید معلومات کیلئے شیخِ طریقت امیرِ اہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے رسالہ ”باحیا نوجوان“ کا مطالعہ کیجئے ۔

سیّدُ الشّہداء حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ

سِن 3 ہجری ماہِ شوال غزوہ ٔاُحد میں جن70 شُہَدا نے اپنی جان دینِ اسلام کے نام پر قربان کی ان میں سےایک عظیم ہستی سیّدُ الشّہداء، اَسدُ اللہ حضرت ابوعمارہ حمزہ ہاشمی قرشی رضیَ اللہ عنہ کی ہے، آپ اس جنگ میں 31 غیر مسلموں کو جہنم واصل کرنے کے بعد ایک چٹان کے قریب پہنچے تو چٹان کے پیچھے چھپے ہوئے ایک دشمن نے دُور سے اپنا نیزہ پھینک کر مارا جو آپ کی ناف میں لگا اور پُشْت کے پار ہو گیا۔ اس حال میں آپ تلوار لے کر دشمن کی طرف بڑھے مگر زخم کی تاب نہ لا کر گِر پڑے اور شہادت سے سرفراز ہوگئے۔ جبلِ اُحد کے دامن میں آپ رضی اللہ عنہ کا مزارِ پُر اَنوار دعاؤں کی قبولیت کا مقام ہے۔ اہلِ محبت آپ کا عرس ہر سال ماہِ شوال کی 15تاریخ کو نہایت عقیدت اور ادب واحترام کے ساتھ مناتے ہیں۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭۔۔۔ شعبہ فیضانِ صحابہ و اہل بیت،المدینۃ العلمیہ ،باب المدینہ کراچی


Share