بغداد شریف کی گلیوں میں قسط2

عُلمائے کرام سے ملاقاتیں عُلومُ القراٰن کانفرنس میں شرکت کے لئے بغدادِ مُعَلّٰی حاضری ہوئی تو ائرپورٹ پر یہاں کے مُنتَظِمین نے خُصوصی پروٹوکول کے بعد ہمیں ایک شاندار ہوٹل میں ٹھہرایا۔ نمازِ عصر ایئرپورٹ پر جبکہ نمازِ مغرب ہوٹل میں ادا کی۔ جس ہوٹل میں ہمیں ٹھہرایا گیا اس میں مختلف ممالک سے آنے والے کثیر عُلَما موجود تھے۔ کئی علمائے کرام سے ملاقات کی سعادت ملی مثلاً شیخ ابوبکر صاحب جو کینیڈا کے بہت بڑے ادارے کے مہتمم ہیں، مفتیِ دبئی شيخ عثمان عمر اويسی، شيخ ابراہيم خليل بخاری ملیباری (کیرالا،ہند)، شيخ ابوبکر ملیباری (ہند)، شيخ صہيب ياس الراوی (منتظمِ وزارت)، شيخ مروان عبيدی (عراق) حفظھم اللہ وغیرہ۔

یہاں جس بُزرگ سے بھی ملاقات ہوتی وہ امیرِ اہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کےمُتعلّق ضرور پوچھتے نیز آپ کو سلام پہنچانے کا کہتے اور آپ کے لئے دُعا کرتے۔ ملکِ شام کے فضیلۃُ الشیخ اَلدُّکتور محمود الحوت اور کانفرنس میں شریک صومالیہ کے دو صاحبان شیخ عبدالقادر علی ابراہیم اور وزیرِ اوقاف شیخ نور محمد حسن حفظھم اللہ نے صُوری پیغامات (Video Messages) بھی بھیجے۔([1])

دنیا بھر میں فضلِ رب سے چرچے ہیں عطّار کے

بڑے بڑے گُن گاتے ہیں ان کے ستھرے کردار کے

والدۂ مرحومہ کا مَدَنی انداز میرا تعلّق ایک میمن گھرانے سے ہے اور میمن برادری کے افراد دیگر بُزرگانِ دین کے ساتھ ساتھ بِالخصوص حضور سیّدنا غوثِ اعظم شیخ عبدُالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے بہت محبّت کرتے ہیں۔ مجھے اچّھی طرح یاد ہے کہ جب بچپن میں اسکول جانے کیلئے صبح گھر سے نکلتا تھا تو میری والدۂ مرحومہ

فرماتی تھیں: ”وڈے پیر جو وسیلو“ یعنی بڑے پیر کے وسیلے سے جاؤ، بڑے پیر کی برکتوں میں جاؤ۔ بڑا ہونے کے بعد بھی جب میں ملک یا بیرونِ ملک کسی سفر پر جانے سے پہلے والدہ کی خدمت میں حاضری دیتا تو وہ مجھے انہی کلمات سے رخصت فرماتیں: ”غوثِ پاک جو وسیلو، بڑے پیر جو وسیلو۔“

مزارِ غوثِ اعظم پر حاضری سیمینار کے اختتام پر باقاعدہ زیارتوں کا اہتمام ہونا تھا، لیکن میری حاضری صرف ایک دن کے لئے تھی، لہٰذا میں بےتاب ہورہا تھا کہ کسی طرح سیمینار سے پہلے ہی بارگاہِ غوثیت میں حاضری کی سبیل بن جائے۔ دل ہی دل میں غوثِ پاک رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں التجا کے علاوہ مُنتَظِمین سے بھی درخواست کی۔ مَدَنی چینل کے سلسلے ”ذہنی آزمائش“ کی مصروفیات کے باعث گزشتہ دو راتوں سے بہت کم نیند کا موقع ملا تھا، اس لئے اپنے رفیقِ سفر اسلامی بھائیوں کو یہ تاکید کرکے سوگیا کہ حاضری کی ترکیب بننے پر مجھے بیدار کردیں۔ تقریباً پونے گھنٹے بعد اسلامی بھائیوں نے مجھے بیدار کرکے یہ خوش خبری سنائی کہ مزارِ غوثِ پاک پر حاضری کا انتظام ہوچکا ہے۔ جلدی جلدی لباس تبدیل کیا، وضو کرکے عِطْر لگا کر نیچے آیا تو تین گاڑیاں تیار تھیں اور ہم پانچ اسلامی بھائیوں کے علاوہ کئی علمائے کرام بھی حاضری کے لئے موجود تھے۔ ہوٹل سے گاڑی تک آتے آتے امیرِ اہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا صَوتی پیغام (Audio Message) موصول ہوا جس میں آپ نے دعاؤں سے نوازنے کے علاوہ بزرگانِ دین کے مزارات پر اپنا سلام پہنچانے کا حکم بھی فرمایا۔ ہم بغدادِ مُعلّٰی کی مُعطّر و مُعنبر ہواؤں میں منقبتِ غوثِ پاک کے اشعار پڑھتے ہوئے پیر و مُرشد کے مزارِ اقدس پر حاضر ہوئے۔ جب ہم مزارِ پُرانوار کے قریب پہنچے تو دروازہ بند ہوچکا تھا، لیکن مُنتَظمِین کی کوشش سے کچھ ہی دیر میں دروازہ کھل گیا اور علمائے کرام کے ہمراہ حاضری نصیب ہوئی، اس وقت ہمارے قافلے کے علاوہ کوئی زائر موجود نہ تھا، اس لئے بڑے سُکون و اطمینان سے حاضری کا موقع ملا۔ یہاں مَنقبت خوانی اور دعا کا سلسلہ بھی ہوا نیز امیرِ اہلِ سنّت اور کئی اسلامی بھائیوں کا سلام پہنچانے کے بعد اشک بار آنکھوں سے رخصت ہوئے۔

تِرے ہاتھ میں ہاتھ میں نے دیا ہے

تِرے ہاتھ ہے لاج یاغوثِ اعظم

فیضانِ مزارِ امامِ اعظم رات تقریباً 11بجے گاڑی میں بیٹھ کر جب مُنتَظِمین سے بات ہوئی تو یہ سُن کر خوشی سے دل جھوم اٹھا کہ اب یہ قافلہ حضرت سیّدنا نعمان بن ثابت امامِ اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مزارِ اقدس پر حاضری دے گا۔ حضرت سیّدُنا امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے: جب مجھے کوئی ضرورت پیش آتی ہے تو میں دو رکعت نماز نَفْل ادا کرتا ہوں اور امام ابوحنیفہ کی قبر کے پاس آکر اس کے حل کیلئے اللہ پاک سے دعا کرتا ہوں تو میری حاجت جلد پوری ہوجاتی ہے۔ (ردالمحتار،ج 1،ص135) امامِ اعظم کے مزار پر حاضر ہوئے تو یہاں بھی دروازہ بند ہوچکا تھا، لیکن ہمارے قافلے کے لئے کھولا گیا۔ یہاں بھی امیرِ اہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ اور دیگر اسلامی بھائیوں کا سلام پہنچانے کے علاوہ دو رکعت نمازِ نَفْل پڑھ کر دعا مانگی۔

عُلومُ القراٰن کانفرنس میں حاضری اگلے دن نمازِ فجر اور ناشتے وغیرہ سے فراغت کے بعد ہمیں کانفرنس ہال میں لے جایا گیا جو دنیا کے بیسیوں ممالک سے تشریف لانے والے عُلَما اور دیگر شخصیات سے کَھچا کَھچ بھرا ہوا تھا۔ تلاوتِ قراٰن سے آغاز کے بعد صدارتی خطبے میں عراق شریف اور بغدادِ مُعلّٰی کے فضائل سُن کر ایمان تازہ ہوگیا۔ مجھے عربی زبان کچھ کچھ سمجھ آتی ہے نیز میرے ساتھ موجود مَدَنی اسلامی بھائی بھی وقتاً فوقتاً ترجمانی کرتے رہے۔ دوپہر ایک بجے تک بیانات ہوتے رہے پھر نماز و طعام وغیرہ کا وقفہ ہوا۔ اس دوران ہند، تاتارستان (Tatarstan) اور مصر وغیرہ کے عُلَمائے کرام سے ملاقات کی سعادت ملی جن میں سے کئی حضرات نے ہمیں مَدَنی قافلہ لے کر اپنے یہاں آنے کی دعوت بھی دی۔

بغدادِ مُعَلّٰی سے نیپال روانگی ایک مصروف دن گزارنے کے بعد کانفرنس ہال سے ہوٹل واپسی ہوئی۔ شام ساڑھے سات بجے بغداد شریف سے دبئی کیلئے میری فلائٹ تھی۔ بغداد ایئرپورٹ حِفاظَتی اُمُور کے لِحاظ سے دنیا کے مشکل ایئرپورٹس میں سے ایک ہے، جہاں تمام معاملات کلیئر کرواتے کرواتے 4 سے 5 گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ ایئرپورٹ جانے کیلئے شام تقریباً سوا پانچ بجے گاڑی آئی، مجھے اندیشہ تھا کہ کہیں میری فلائٹ نہ نکل جائے لیکن مُنتَظِمین کی مہربانی سے تمام مراحل جلد طے ہوئے اور ہوٹل سے ایئرپورٹ کے لاؤنج تک پہنچنے میں صرف تقریباً 35 منٹ لگے۔

اِنْ شَآءَ اللہ مَدنی سفر نامہ کی اگلی قسط میں سفرِ نیپال کے احوال عرض کرنے کی کوشش کروں گا۔ اللہ کریم تادمِ حیات سُنّتوں کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

تبلیغ سُنّتوں کی کرتا رہوں ہمیشہ

مرنا بھی سُنّتوں میں ہو سُنّتوں میں جینا


شوَّالُ المکرم کے چند اہم واقعات

٭یکم شوَّالُ المکرم43ہجری کو صحابیِ رسول حضرت سیّدُنا عَمَرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا اور یکم شوَّالُ المکرم256ہجری امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا وصال ہوا۔

٭10شوَّالُ المکرم1272ہجری کو اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت ہوئی۔

٭15شوَّالُ المکرم3ہجری کو غزوۂ اُحد ہوا، اسی غزوہ میں حضرت سیّدُنا امیرحمزہ اور حضرت سیّدُنا مُصْعَب بن عُمیر سمیت 70 صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین شہید ہوئے۔

٭شوَّالُ المکرم8ہجری میں غزوۂ حُنَین ہوا جس میں 4 مسلمان شہید ہوئے۔

٭شوَّالُ المکرم ہی میں حضرت سیّدَتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور اَواخرِ ماہِ شوَّال4 ہجری میں حضرت سیّدَتُنا اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنہا نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نکاح میں آئیں۔

٭شوَّالُ المکرم54ہجری میں اُمُّ المؤمنین حضرت سیّدَتُنا سَودہ بنتِ زَمعہ رضی اللہ عنہا کا وصال ہوا۔

٭شوَّالُ المکرم1401ہجری بمُطابِق ستمبر1981میں عاشقانِ رسول کی مدنی تحریک دعوتِ اسلامی کا آغاز ہوا۔

https://www.facebook.com/AbdulHabibAttari/

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭۔۔۔رکنِ شوری و نگران مجلس مدنی چینل



[1]یہ پیغامات ”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“ شعبان المعظم1440ھ میں شائع ہوچکے ہیں۔


Share