بدگمانی کی مذمت  احادیث کی روشنی میں

نئے لکھاری

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جون2023

بدگمانی کی مذمت احادیث کی روشنی میں

*بنتِ منوَّر حُسین عطّاریہ

بدگمانی کی تعریف بد گمانی سے مراد یہ ہے کہ بلا دلیل دوسرے کے برے ہونے کا دل سے اعتقادِ جازم  ( یعنی یقین کرنا ) ۔   ( باطنی بیماریوں کی معلومات ، ص140 )

مفتی نعیم الدین مراد آبادی رحمۃُ اللہ علیہ لکھتے ہیں : مؤمن ِ صالح کے ساتھ بُرا گمان ممنوع ہے ، اسی طرح اس کا کوئی کلام سن کر فاسد معنیٰ مراد لینا باوجود یہ کہ اس کے دوسرے صحیح معنی ٰموجود ہوں اور مسلمان کا حال ان کے موافق ہو ، یہ بھی گمانِ بد میں داخل ہے۔ سفیان ثوری رضی اللہ عنہ نے فرمایا گمان دو طرح کا ہے : ایک وہ کہ دل میں آئے اور زبان سے بھی کہہ دیا جائے ، یہ اگر مسلمان پر بدی کے ساتھ ہے تو گناہ ہے۔دوسرا یہ کہ دل میں آئے اور زبان سے نہ کہا جائے ، یہ اگرچہ گناہ نہیں مگر اس سے بھی دل خالی کرنا ضروری ہے۔

 ( خزائن العرفان ، ص930 ملخصاً )

گمان کی کئی قسمیں ہیں واجب : اللہ کے ساتھ اچھا گمان رکھنا۔ مستحب : مؤمنِ صالح کے ساتھ نیک گمان۔ ممنوع حرام : اللہ کے ساتھ بُراگمان کرنا اور مؤمن کے ساتھ بُراگمان کرنا۔ جائز : فاسقِ مُعلِن کے ساتھ ایسا گمان کرنا جیسے افعال اس سے ظہور میں آتے ہوں۔

 ( باطنی بیماریوں کی معلومات : ص142 ملخصاً )

بدگمانی کی مذمت احادیث میں بھی آئی ہے۔چند فرامینِ مصطفےٰ آپ بھی پڑھئے :

 ( 1 ) جس نے اپنے بھائی کے متعلق بدگمانی کی بے شک اس نے اپنے رب سے بد گمانی کی کیونکہ اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے : ) اِجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘- ( ترجمۂ کنزالایمان : بہت گمانوں سے بچو۔ ( پ26 ، الحجرات : 12-کنزالعمال ، جز3 ، 2 / 199 ، حدیث : 7584 ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)     ( 2 ) بدگمانی سے بچو بے شک بد گمانی بد ترین جھوٹ ہے۔ ( بخاری ، 3 / 446 ، حدیث : 5143 )  ( 3 ) مسلمان کا خون ، مال اور اس سے بدگمانی  ( دوسرے مسلمان پر ) حرام ہے۔ ( شعب الایمان ، 5 / 297 ، حدیث : 6706 )  ( 4 ) میری امت میں تین چیز یں لازماًرہیں گی : بدفالی ، حسد اور بدگمانی۔عرض کی گئی : یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جس شخص میں یہ تین خصلتیں ہوں وہ ان کا کس طرح تَدارُک کرے ؟ ارشاد فرمایا : جب تم حسد کرو تو اللہ سے اِستِغفار کرو اور جب تم کوئی بدگمانی کرو تو اس پر جمے نہ رہو اور جب تم بدفالی نکالو تو اس کام کو کرلو۔ ( معجم كبير ، 3 / 228 ، حدیث : 3227 )

اس حدیثِ پاک میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ تینوں خصلتیں امراضِ قلب میں سے ہیں جن کا علاج ضروری ہے جو کہ حدیث میں بیان کر دیا گیا ہے۔ بدگمانی سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ دل یا اعضاء سے اس کی تصدیق نہ کرے۔ تصدیقِ قلبی سے مراد یہ ہے کہ اس گمان کو دل پر جمالے اور اسے نا پسند بھی نہ جانے اور اس  ( یعنی تصدیق قلبی ) کی علامت یہ ہے کہ بدگمانی کرنے والا اس بُرے گمان کو زبان سے بیان کردے۔  ( فیض القدیر ، 3 / 401 ، تحت الحدیث : 3465 )

امیرِ اہلِ سنت حضرت علّامہ محمد الیاس عطّار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ فرماتے ہیں : حسنِ ظن میں کوئی نقصان نہیں اور بدگمانی میں کوئی فائدہ نہیں۔

بد گمانی کا حکم مکتبۃُ المدینہ کی کتاب باطنی بیماریوں کی معلومات ، ص142 پر ہے : دل میں کسی کے بارے میں بُرا گمان آتے ہی اسے گنہگار قرار نہیں دیا جائے گا کیونکہ محض دل میں بُرا خیال آجانے کی بنا پر سزا کا حقدار ٹھہرانے کا مطلب کسی انسان پر اس کی طاقت سے زائد بوجھ ڈالنا ہے اور یہ بات شریعت کے خلاف ہے ، اللہ پاک کا فرما ن ہے : (لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَاؕ- )ترجمۂ کنزالایمان : اللہ کسی جان پر بوجھ نہیں ڈالتا مگر اس کی طاقت بھر۔ ( پ3 ، البقرۃ : 286 )  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

بدگمانی سے بچنے کے طریقے بد گمانی کی ہلاکت خیزیوں سے بچنے کے لئے ہمیں چاہئے کہ اس باطنی مرض کے علاج کے لئے عملی کوششوں کا آغاز کرتے ہوئے : * اپنے مسلمان بہن ، بھائیوں کی خوبیوں پر نظر رکھیں * بُری صحبت سے بچتے ہوئے اچھی صحبت اختیار کریں * خود بھی نیک بنئے تاکہ دوسرے بھی نیک نظر آئیں * کسی سے بدگمانی ہو تو خود کو عذابِ الٰہی سے ڈرائیے * کسی کے بارے میں بدگمانی پیدا ہو تو اپنے لئے دعا کیجئے۔

اللہ کریم سے دعا ہے کہ اپنے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدْقے میں ہمیں ایک دوسرے کے بارے میں حُسن ِ ظن رکھنے اور بدگمانی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری بلاحساب مغفرت فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*  درجۂ دورۂ حدیث ، جامعۃُ المدینہ گرلز گلبہار سیالکوٹ


Share