امانت دار بن جائیے

حدیث شریف اور اس کی شرح

امانت دار بن جائیے

*مولانا محمد ناصر جمال عطاری مدنی

ماہنامہ فیضان مدینہ جون 2023

رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : لَا ‌اِيْمَانَ ‌لِمَنْ لَا اَمَانَةَ لَہٗ یعنی جو امانت دار نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں۔)[1](

ہروہ حق ( Right ) جسےادا کرنا اور اُس کی حفاظت کرنا لازم ہو ” امانت “ کہلاتا ہے۔)[2]( امانت : خیانت کی ضد  ( Opposite )  ہے۔)[3]( شرعی اجازت کے بغیر کسی کی امانت میں تصرّف کرنا خیانت ہے۔)[4](

چونکہ امانت داری سےانسانی حقوق  ( Human Rights )  کو پروٹیکشن ملتی ہے اس لئے اسلام نے ” امانت داری “ کو ایمان کاجوہر قراردیا ہے نیزجیسے بدن کے لئے دل کی اہمیت ہے ایسے ہی امانت کو ایمان کےلئے اہم ترین قراردیا ہے۔)[5](

رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اِس فرمان کی شرح یہ ہے کہ

 ( 1 ) یہ و عید ہےجس کا مقصد زجر ( ڈانٹنا )  اور کمالِ ایمان کا انکار ہے ، مراد یہ ہے کہ جو کسی کے مال ، اپنی ذات یا اپنے گھروالوں کےحوالےسے خیانت کرے تو ایسے شخص کا ایمان کامل  ( Complete )  نہیں۔)[6](

 ( 2 ) اس حدیث پاک کی ایک وضاحت یہ بھی ہے کہ مومن وہ ہے کہ جس سے دوسرے مسلمانوں کی جان و مال امن میں ہو اور جواِس میں خیانت کرے تو اُس کا ایمان کامل نہیں۔)[7](

 ( 3 ) یہ بھی ممکن ہے کہ یہاں حقیقتِ ایمان کا انکار مراد ہو اِس صورت میں مراد یہ ہوگی کہ جب بندہ اِن امور میں  ( یعنی دوسرے کے مال ، اپنی ذات یا اپنے گھر والوں کے حوالے سے )  خیانت کا عادی بن جائےتو ایسے شخص کے کفر میں مبتلا ہوجانے کا خوف ہے۔)[8]( خیانت کی وجہ سے انسان طرح طرح کے گناہوں میں مبتلا ہوجاتا ہےچونکہ گناہ کفر کے قاصد ہیں اس لحاظ سےخیانت کرنے والےکاایمان خطرے میں رہتا ہے۔)[9](

امانت داری رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پوری زندگی امانت داری میں اِس قدر نمایاں رہی کہ آپ کو ” امین “  ( یعنی امانت دار )  کے لقب سےپُکاراجاتا۔جب آپ نے اسلام کی دعوت کا آغاز فرمایا اور قریش کے وفد  ( Delegation )  سے رومی بادشاہ نے اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بارے میں دریافت کیا تو دشمن کی زبان سے جن خوبیوں کا ذکر ہوا اُن میں امانت داری بھی شامل تھی ، حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے شاہِ حبشہ کے دربار میں سیرتِ مصطفےٰ کےجن پہلوؤں کو بیان کیا اُن میں بھی امانت داری شامل تھی۔ کفارِ مکہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بدترین دشمن تھے لیکن اِس کے باوجود آپ پر اتنا اعتبار تھاکہ اپنی امانتیں آپ کے پاس رکھتے ، جب آپ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ آنے لگے تو حضرت علیُّ المرتضٰی رضی اللہ عنہ کی یہ ذمّہ داری لگائی کہ یہ امانتیں مالکوں تک پہنچانے کےبعد مدینہ آئیں۔

امانت کی قسمیں ” امانت “ چونکہ حقوق کی محافظ ہے اِس لحاظ سے اِس کا تعلق ربّ سےبھی ہے ، انسان کی اپنی ذات سے بھی اور دوسرے بندوں کے ساتھ بھی۔ امانت کی اقسام  ( Types )  کی تفصیل یہ ہے :

اللہ کے ساتھ امانت داری اللہ پاک نےجن کاموں کا حکم دیا ہے اُن کو کرنا اور جن کاموں سے منع کیا ہےاُن کو نہ کرنا اللہ کے ساتھ امانت داری ہے۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتےہیں : ” ہرچیز میں امانت لازم ہے یہاں تک کہ وُضو ، جنابت ، نماز ، روزہ میں۔ “ اللہ پاک نے زبان کو غیبت کرنے ، کُفر ، بدعت ، فحش بکنے سے روکنے کاحکم دیا ہے لہٰذا زبان کو اِن چیزوں سے بچانا زبان کی امانت ہے ، اللہ پاک نے آنکھ کو حرام دیکھنے سے منع کیا ہے ، آنکھ کو اِن چیزوں سے بچانا آنکھ کی امانت ہے۔یہی معاملہ دیگر چیزوں کا بھی ہے۔

نفس کےساتھ امانت داری نفس کےساتھ امانت یہ ہے کہ اپنے لئے اُسی چیزکا انتخاب کرےجو دین و دنیا کے اعتبار سے زیادہ فائدہ مند ہو اور خواہش اور غضب کی وجہ سے ایسا کام نہ کرے جو آخرت میں نقصان کا باعث ہو۔

بندوں کے ساتھ امانت بندوں کے ساتھ معاملات میں امانت داری یہ ہے کہ لوگوں کی امانتیں انہیں لوٹائی جائیں ، ناپ تول میں کمی کرنے سے بچاجائے ، لوگوں کی پردہ پوشی کی جائے وغیرہ وغیرہ۔)[10](

تین چیزوں میں رخصت نہیں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےفرمایا : تین چیزیں ایسی ہیں جن میں کسی کو کوئی رخصت نہیں :  ( 1 ) والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا خواہ وہ مسلمان ہوں یاکافر  ( 2 ) وعدہ پوراکرناخواہ مسلمان سے کیا ہو یا کافر سے اور  ( 3 ) امانت کی ادائیگی خواہ مسلمان کی ہو یا کافر کی۔)[11](

اما نت دار تاجر کی فضیلت رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : سچا ، امانت دار مسلمان تاجر قيامت کے دن شہدا کے ساتھ اٹھايا جائے گا۔)[12](

منافق کی چار نشانیاں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : چار باتیں جس میں ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس کے اندر ان میں سے کوئی ایک ہو تو اس میں نفاق کا ایک حصہ ہےیہاں تک کہ اسےچھوڑدے :  ( 1 ) جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائےتو خیانت کرے  ( 2 ) جب بات کرے تو جھوٹ بولے  ( 3 ) جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے  ( 4 ) جب جھگڑا کرے تو بیہودہ بکے۔)[13](

یہ مقام کیسے ملا ؟ حکیم لقمان کی خدمت میں عرض کی گئی : آپ اِس مرتبے تک کیسےپہنچے ؟ فرمایا : سچ بولنے ، امانت ادا کرنے اور غیرضروری کاموں سےبچنے کی وجہ سے۔)[14](

اگر ہم ایمان دار بن جائیں امانت داری سے متعلق یہ تفصیل ہمیں بتاتی ہے کہ امانت دار بننے میں ہمارا ہی فائدہ ہے کیوں کہ امانت داری وہ راستہ ہے جس پر چلنے سے دل میں خوفِ خدا پیدا ہوتا ہے ، ایک دوسرے کی عزت وآبرو ، جان و مال کی حفاظت ہوتی ہےاورامن وامان قائم ہوتا ہے ، گھر کی بات گھر تک رہتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سوسائٹی سے بددیانتی اور بے ایمانی کا خاتمہ ہوتا ہے اور ایک دوسرے کےساتھ تعاون کاجذبہ ، گرتے کو سنبھالنے اور دُکھ دَرد دُور کرنے کا ذریعہ ثابت ہوتا ہے۔ اللہ کریم ہمیں امانت دار بن کر زندگی گزارنے کی توفیق عطافرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* ذمہ دار شعبہ فیضانِ حدیث ، المدینۃ العلمیہ ( Islamic Research Center )



[1] مسند احمد ، 4 / 271 ، حدیث : 12386

[2] فیض القدیر ، 1 / 288 ، تحت الحدیث : 308

[3] لمعات التنقیح ، 1 / 301

[4] عمدۃ القاری ، 1 / 328 ، تحت الحدیث : 33

[5] فیض القدیر ، 6 / 495 ماخوذاً

[6] شرح السنہ للبغوی ، 1 / 69 ، تحت الحدیث : 32

[7] التیسیر ، 2 / 488

[8] شرح السنہ للبغوی ، 1 / 69 ، تحت الحدیث : 32

[9] مرقاۃ المفاتیح ، 1 / 199 ، تحت الحدیث : 35 ماخوذاً

[10] تفسیر کبیر ، 4 / 109 ، النسآء ، تحت الآیۃ : 58

[11] شعب الایمان ، 4 / 82 ، حدیث : 4363

[12] ابن ماجہ ، 3 / 6 ، حدیث : 2139

[13] بخاری ، 1 / 25 ، حدیث : 34

[14] موطاامام مالک ، 2 / 467۔


Share