استنبول کی کچھ یادیں

راہِ خدا میں سفر کرنا سلف صالحین(بزرگوں) کا طریقہ اور نیکی کی دعوت میں بہت مفید و مؤثر ہے۔ دنیا کے اکثر و بیشتر خِطّوں میں اسلام کا پرچارعلما، صوفیا، اولیا اور مبلغین کے سفروں کی بدولت ہی ہوا ہے، اور اسی طریقہ پر عمل پیرا ہوکر   اَلْحَمْدُ للّٰہ عَزَّوَجَلَّ دعوتِ اسلامی کا مدنی کام دنیا کے کونے کونے تک پہنچا ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ اسلامی بھائی جن کے سفر کرنے، نیکی کی دعوت دینے اور مدنی کاموں کی بنیاد رکھنے سے بیسیوں ممالک کے لاکھوں مسلمانوں میں دینی جذبہ بیدار ہوا، نمازوں کا شوق، سنّتوں سے محبت، نیکیوں کی رغبت اور گناہوں سے نفرت پیدا ہوئی بلکہ کفار نے اسلام قبول کیا اور انہی مبلّغین کے طفیل اَلْحَمْدُ للّٰہ عَزَّوَجَلَّ دنیا بھر میں بِلا مُبالغہ ہزاروں مساجد و مدارس بنے، قرآن اور سنّتیں سیکھنے سکھانے کی ترکیب ہوئی، لاکھوں لوگوں نے اس سے فیض پایا اور ہفتہ وار اجتماعات، درس و بیان اور نیکی کی دعوت کا مدنی کام شروع ہوا۔ ہوسکتا ہے کہ سفر کرکے نیکیوں کے بیج بونے والے یہ مبلّغین اپنے گھروں میں آرام سے بیٹھے ہوں یا اپنے دنیاوی کام کاج میں مصروف ہوں لیکن ان کی نیکیوں کا میٹر مسلسل چل رہا ہے جیسا کہ حدیثِ مبارک میں ہے:”جو ہدایت کی طرف بُلائے اسے ان تمام لوگوں کے ثواب کی مثل ثواب ملے گا جنہوں نے اس کی پیروی کی اور اس سے ان لوگوں کے اپنے ثواب سے کچھ کم نہ ہوگا۔“(مسلم،ص1103،حدیث:6804)

میرے بیرونِ ملک کے متعدد اَسفار نگرانِ شوریٰ حاجی محمد عمران عطاری مَدَّظِلُّہُ الْعَالِی کے ساتھ ہی ہوئے ہیں، ساؤتھ افریقہ اور انگلینڈ کے سفر میں اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ بہت کچھ دیکھا اور سیکھا۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ ساؤتھ افریقہ میں ایک جگہ نگرانِ شوریٰ کا بیان تھا جہاں کافی بڑا اجتماع تھا، لوگ بڑے پُرجوش انداز میں نعرے لگا رہے تھے اور ایک عجیب روحانی فضا تھی۔ اجتماع کے بعد میں نے نگرانِ شوریٰ کو اجتماع کی کامیابی کی مبارک دی تو انہوں نے جواب دیا کہ چند سال پہلے اسی جگہ میں نے بیان کیا تھا تو صرف دو درجن کے قریب اسلامی بھائی تھے لیکن اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ اس اجتماع کے بعد مدنی کاموں میں ایسی برکت ہوئی کہ آج اتنی بڑی مسجد، اس سے متصل ہال اور باہر بھی قدم رکھنے کی جگہ نہیں تھی۔ ساؤتھ افریقہ میں دعوتِ اسلامی کا مدنی کام اتنی تیزی سے بڑھا کہ تقریباً آٹھ دس سال کے مختصر عرصہ میں نگرانِ شوریٰ کے ہر دوسرے سال سفر اور وہاں کے اسلامی بھائیوں کی کوششوں سے اِس وقت وہاں دو سے بڑھ کر تقریباً پنتالیس(45) مدنی مراکز بن چکے ہیں بلکہ جنوبی افریقہ ہی کے ایک شہر کا مجھے یاد ہے کہ جہاں کئی سالوں کی کوششوں کے باوجود مسلمان مسجد کیلئے جگہ نہ خرید سکے، نگرانِ شوریٰ نے بیان کرکے ترغیب دلائی تو اگلے چوبیس گھنٹے کے اندر اندر مسجد کیلئے جگہ کا انتظام ہوگیا اور اب اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ وہاں مسجد موجود ہے اور باقاعدگی سے نمازوں اور مدنی کاموں کی ترکیب جاری ہے۔ سُبْحٰنَ اللہ! یہ اللّٰہ تعالٰی کا دعوتِ اسلامی پر کرم ہے، اللّٰہ تعالٰی کوشش کرنے والوں کی کوشش کو رائیگاں نہیں جانے دیتا۔

میں اپنے علم و مشاہدے میں اضافہ کرنے، مبلّغینِ دعوتِ اسلامی سے بہت کچھ سیکھنے اور دیگر اچھی اچھی نیّتوں کے ساتھ 03اکتوبر2017ء کو غیر ملکی ایئر لائن کے ذریعے براستہ دبئی (متحدہ عرب امارت) ترکی کے شہر استنبول پہنچا۔ باب المدینہ کراچی سے دبئی تک مجلسِ بیرونِ ملک کے نگران، رُکن شوریٰ   عبدالحبیب بھائی ساتھ تھے، اَلْحَمْدُ للّٰہ عَزَّوَجَلَّ شرعی مسائل اور تنظیمی امور پر گفتگو ہوتی رہی۔ دبئی سے ترکی نگرانِ شوریٰ بھی رفیقِ سفر بن گئے، مجلسِ بیرونِ ملک کے نگران عبدالحبیب بھائی کو امیرِ قافلہ مقرر کیا گیا۔ دونوں اَسفار کے دوران گوشت کے شرعی مسائل کے پیشِ نظر ہم اسپیشل فوڈ کے منتظر رہے لیکن مقررہ وقت سے پہلے ائیر لائن والوں کو نہ لکھوانے کی وجہ سے ہمیں خصوصی کھانا نہ مل سکا جس کے سبب صرف پھل اور سادہ سینڈوچ پر ہی گزارا کیا۔ دبئی سے استنبول تک نگرانِ شوریٰ کے ساتھ کثیر مسائل و معاملات پر گفتگو جاری رہی۔ دارُالافتاء اہلسنت کے اَہم امور و فتاویٰ، مجلسِ تحقیقاتِ شرعیہ کے مشورے، دعوتِ اسلامی کے کُتُب و رسائل کو مزید خوبصورت بنانے، ہفتہ وار اجتماع کے بیانات کے موضوعات اور تیاری کے طریقے، دیگر زبانوں میں دعوتِ اسلامی کی کتب کے تراجم، یورپ اور ترکی میں مدنی کام، شامی مہاجر مسلمانوں کی خدمت اور خصوصاً ان کے دین و ایمان کے تحفظ پر بہت مفید اور اچھی مشاورت جاری رہی۔ یوں اَلْحَمْدُ للّٰہ عَزَّوَجَلَّ سارا سفر نیکی کی دعوت، خدمتِ دین اور اعلائے کلمۃ اللہ کے عظیم مقصد کے متعلّق گفتگو کرنے میں گزرا جو ذکرِالٰہی کی ایک عمدہ صورت ہے جیسا کہ قرآنِ پاک میں ہے:(لَا خَیْرَ فِیْ كَثِیْرٍ مِّنْ نَّجْوٰىهُمْ اِلَّا مَنْ اَمَرَ بِصَدَقَةٍ اَوْ مَعْرُوْفٍ اَوْ اِصْلَاحٍۭ بَیْنَ النَّاسِؕ     )اُن کے اکثر خفیہ مشوروں میں کوئی بھلائی نہیں ہوتی مگر ان لوگوں (کے مشوروں) میں جو صدقے یا نیکی کا یا لوگوں میں باہم صلح کرانے کا مشورہ کریں۔ (پ5،النساء:114)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اَلْحَمْدُ للّٰہ عَزَّوَجَلَّ اس گفتگو سے جذبہ ملا، معلومات میں اضافہ ہوا اور خدمتِ دین کے کئی میدانوں سے شناسائی ہوئی۔

استنبول پہنچ کر ایئر پورٹ پر ہی ظہر کی نماز ادا کی اور مدنی کاموں کیلئے کرایہ پر لی گئی ایک جگہ پہنچے جہاں ترکی کے ایک معروف و متحرک عالمِ دین پہلے سے موجود تھے، دعوتِ اسلامی کی خدماتِ دینیہ پر بہت خوش ہوئے۔ نہایت اِصرار کے ساتھ اپنی مسجد آنے کی دعوت دیتے رہے لیکن ہمارا جدول اس قدر مصروف تھا کہ اصلاً گنجائش نہ تھی اس لئے عاجزی کے ساتھ معذرت کرلی۔ دیگر علما بھی تشریف لائے اور بہت خوش ہوئے۔ عصر کی نماز پڑھنے کے بعد ہلکا پھلکا کھانا کھاکر نمازِ مغرب کیلئے ایک مسجد میں جانا ہوا جہاں بعدِ نماز نگرانِ شوریٰ کا مختصر بیان ہوا جس کا ساتھ ساتھ عربی اور ترکی زبان میں مبلّغین ترجمہ کرتے رہے۔ بیان کے بعد ملاقات کی ترکیب تھی، جس میں ترکی کے بہت سے افراد نے شرکت کی۔ پینٹ شرٹ میں ملبوس ان لوگوں میں ادب و تعظیم کا حیرت انگیز مظاہرہ دیکھا، سب لوگ اول تا آخر دوزانو بیٹھے رہے، وہیں ایک پیر صاحب بھی تشریف فرما تھے جو نگرانِ شوریٰ کی گفتگو سے نہایت خوش ہوئے، دعائیں دیتے رہے اور اپنے ہاں مدنی کام کرنے کی مکمل اجازت بلکہ دعوت دی۔

بعدِ عشاء ایک اسلامی بھائی کے گھر پر کھانا کھانے کے بعد آرام کیا اور اُس آرام کے کیا کہنے کہ میں اور عبدالحبیب بھائی پچھلے چھتیس (36)گھنٹے سے جاگ رہے تھے جبکہ نگرانِ شوریٰ کی بھی کم و بیش یہی کیفیت تھی۔ سفر کی تھکان، نیند کی کمی، مسلسل کام کے بعد آدھی رات کے وقت جس نیند کو خوشگوار سمجھ کر گلے لگایا وہ کم ہی وقت کی رفیق ثابت ہوئی کیونکہ صرف تین چار گھنٹے بعد ہی اٹھنا پڑا کیونکہ حضرت ابو ایّوب انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مزار مبارک پر حاضری کیلئے جانا تھا اور اس کیلئے فجر کی نماز وہیں پڑھنی تھی، چنانچہ مزار شریف سے متصل مسجد میں نمازِ فجر ادا کی اور بعدِ فجر مزار شریف پر حاضری کی سعادت حاصل کی، زائرین کی کثیر تعداد وہاں موجود تھی۔ قریب ہی قبرستان تھا جس میں قبروں پر ترکی کے پرانے رسم الخط یعنی عربی انداز میں کتبے لکھے ہوئے تھے۔ کچھ ہٹ کر دیگر صحابۂ کرام کے مزارات بھی موجود تھے۔                            (مزید احوال اگلی قسط میں ملاحظہ کیجئے)


Share