سفر حرمین اور چند احتیاطیں

سفرِ حرمین اور چند احتیاطیں

*مولانا ابوالنورراشد علی عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ مئی 2025ء

حرمين طیبین کی حاضری بہت ہی سعادت و برکت کی بات ہے۔ اہلِ ایمان  رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی ولادت گاہ مکۃ المکرمہ اور ہجرت گاہ مدینۃ المنورہ کی زیارت و حاضری کے لئے تڑپتے اور اس حاضری کے انتظامات کے لئے محنت کرتے اور زادِ راہ جمع کر کرکے اس سفر کی سعادت پانے کے خواب کو پورا کرتے ہیں۔

حرمین شریفین کی حاضری میں دو اہم مقاصد ہوتے ہیں، ایک حج یا عمرہ اور دوسرا رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی بارگاہِ بےکس پناہ میں حاضری  اور سلام۔   حج تو صاحبِ استطاعت پر زندگی میں ایک بار فرض ہے جبکہ عمرہ نفلی عبادت ہے۔  

حدیثِ پاک میں ان کی بہت فضیلت ارشاد ہوئی ہے  چنانچہ  حضور سیّدِ عالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کا فرمان ہے:حاجی اور عمرہ کرنے والے اللہ پاک کے مہمان ہيں،وہ انہيں بلاتا ہے تو يہ اس کے بلاوے پر لبيک کہتے ہيں اوریہ اس سے سوال کرتے ہيں تو اللہ پاک اِنہيں عطا فرماتا ہے۔ (کنز العمال،5/5،حدیث:11811)

محسنِ انسانیت  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کا فرمانِ عالیشان ہے:عمرہ اگلے عمرے تک کے گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے اور حجِ مبرور کی جزا جنت کے سوا کچھ نہيں۔

(مسلم،ص903،حدیث:3289)

عمرہ کرنا جہاں بہت سعادت مندی کی بات ہے وہیں اس کی بہت سی احتیاطیں اور شرعی مسائل بھی ہیں، احرام کی پابندیوں کا علم ہونا اور ان کا خیال رکھنا ضروری ہے، جبکہ سفر حرمین شریفین میں دیکھا گیا ہے کہ دیہاتی، ضعیف، بیمار لوگ بالخصوص اور اَن پڑھ لوگ بالعموم  احرام کی پابندیوں کا کوئی خیال نہیں کرتے۔ ضعیف افراد کے لئے تو بہت ہی آزمائش ہوتی ہیں کیونکہ ساری زندگی تو  اس طرف توجہ نہیں ہوتی اور جب اچانک سفر درپیش ہوتا ہے تب بھی یا تو سیکھنے کی کوشش نہیں کرتے یا سیکھنے کی حالت میں ہی نہیں ہوتے۔

یہاں عمرہ پر جانے والوں  اور  اپنے بوڑھے ماں باپ کو بھیجنے والوں  کے لئے  چند احتیاطیں پیش کی جاتی ہیں:

(1)سب سے پہلے اولاد  کو مشورہ ہے کہ اپنے ماں باپ کو کوشش کرکے  صحت و تندرستی  کی عمر میں ہی حج و عمرہ  کروانے کی کوشش کریں، ضعیف العمری اور  بیماریوں  کے ساتھ حرمین شریفین کا سفر  کرنے والوں کو آزمائشوں کا بھی سامنا ہوتاہے۔

(2)بیمار اور ضعیف افراد کو کبھی بھی ٹریول ایجنٹ یا گروپ لیڈر یا کسی محلے دار کے سہارے پر  نہ بھیجیں۔ گروپ لیڈر صرف چند دعائیں پڑھائے گا اور دور دور سے چند زیارات کا بتائے گا، وہ آپ کے بیمار یا ضعیف والدین کو نہیں سنبھالے گا، کہاں ویل چیئر کی ضرورت ہے؟ کب انہیں واش روم کی حاجت ہے؟ کہاں ان کے بیٹھنے یا کھڑے ہونے میں سہولت ہے؟ یہ سب آپ فکر کر سکتے ہیں، کوئی دوسرا نہیں۔

(3)ٹریول سروس کا کام بہت عام ہوگیا ہے، گلی گلی ایجنٹ بیٹھتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ  ٹریول کی ڈائریکٹ خدمات بہت کم لوگ دیتے ہیں،  اکثر  لوگ دوسروں کے نمائندے ہی ہوتے ہیں۔ اس لئے کئی باردھوکے ہوتے ہیں لہٰذا عمرہ کا پیکج لینے سے پہلے اچھی طرح چھان بین کرلیں اور    عمرہ کا پیکج کسی بڑے ٹریول ایجنٹ سے خریدیں جو تمام سروسز ڈائریکٹ دیتے ہوں۔

(4)اکثر ٹریول ایجنٹ اپنے اشتہارات اور سوشل میڈیا پیجز پر علما اور دیگر شخصیات کی تصاویر اور ویڈیوز لگا کر اپنی مشہوری اور اعتماد و بھروسا دلانے کی کوشش کرتے ہیں، یاد رکھئے ایسی ایڈورٹائز ز پر کبھی بھروسا نہ کریں، بلکہ جس ٹریول سے بھی عمرہ پیکج لینا ہو، پہلے اپنے پڑوس اور محلے وغیرہ میں ایسے لوگ تلاش کریں جو اسی ٹریول سے پیکج لے چکے ہوں اور سفر کرچکے ہوں، ان سے تمام احوال جانیں پھر اگلا قدم اٹھائیں۔

(5)ٹریول ایجنٹ بلکہ کبھی بھی کہیں بھی کسی کے ساتھ  بھی رقم کا  لین دین کریں تو کسی محفوظ مقام پر اور لکھ کر کریں، اور لکھنے میں باقاعدہ دستخط، نشانِ انگوٹھا وغیرہ کا اہتمام کریں۔ سلام دعا، واقفیت، تعلقات وغیرہ جو بھی ہوں انہیں ایک سائیڈ رکھیں۔

(6)سفرحرمین میں ایک اہم ترین معاملہ  رہائش کا ہوتا ہے۔ رہائش جس قدر قریب ہو اتنا ہی فائدہ اور آسانی ہوتی ہے، بالخصوص بیماروں اور ضعیفوں کے لئے تو بہت ضروری ہے کہ  رہائش قریب ہو، لیکن یہاں بھی ٹریول ایجنٹس کی بہت چالاکیاں ہوتی ہیں،  ایڈورٹائز پر لکھا ہوتا ہے کہ ہوٹل 600 میٹر یا اس سے کچھ کم زیادہ، جب کہ حقیقتاً وہ زیادہ دور ہوتاہے، نیز یہ فاصلہ بھی مسجد  شریف کے آخری احاطے سے باہر تک کا ہوتاہے،  چونکہ   مسجد شریف  کا اپنا احاطہ ہی کافی وسیع ہے تو یوں پیدل چلنے کا سفر کافی بڑھ جاتاہے، خاص طور پر جب عمرہ کی نیت سے پہنچتے ہیں تو طواف اور سعی بھی کرنی ہوتی ہے تو شروع ہی میں ہوٹل سے حرم تک اور حرم سے صحنِ کعبہ تک چلنا بیمار اور ضعیف افراد کے لئے بہت تھکن کا سبب ہوجاتا ہے۔ بعض ایجنٹ کہتے ہیں کہ آپ کو شٹل سروس ملے گی، یعنی ہوٹل کے باہر ہوٹل کی بس ہوگی جو حرم شریف کے پاس اتارے گی،  اس بات میں سچ  تو ہوتا ہے لیکن یہ سچ بڑا کڑوا ہوتاہے،  وہ یوں کہ اول تو یہ بسیں حرم شریف تک جاتی ہی  نہیں، بلکہ ”کدی“ اسٹاپ تک جاتی ہیں، وہاں سے آپ  سرکاری بس میں بیٹھیں گے جو   کلاک ٹاور  پر بیس منٹ میں اتارے گی، یہاں سے صرف پانچ منٹ پیدل پر حرم شریف ہوتاہے۔  ایک آزمائش یہ ہوتی ہے کہ اکثر ہوٹلوں کی صرف دو ہی بسیں ہوتی ہیں  اس لیے ان پر  بیٹھ کر حرم شریف جانے کے لیے بھی انتظار کرنا پڑتا اور واپسی پر تو بہت دفعہ بس ملتی ہی نہیں، کافی انتظار کرنا پڑتاہے۔ اس صورتِ حال میں ضعیف اور بیمار افراد تو کیا اچھے بھلے جوان بھی اکتاجاتے ہیں اور معاذاللہ بعض تو  کچھ غلط بھی بول دیتے ہیں۔

اس لئے مشورہ ہے کہ درج ذیل میں سے کوئی ایک اقدام کرلیں:

(۱)مکہ شریف میں ہوٹل کبوتر چوک کے پاس یعنی کبری (Flyover) کے اندر اندر لیں، کبری کے پار ہر گز نہ لیں،  یہاں کے ہوٹل مہنگے ہیں، البتہ گلیوں کے اندر سستے بھی ہیں یعنی جو ہوٹل دور آپ کو مل رہا ہے اسی میں دس بیس ہزار کا اضافہ ہوگا، لیکن بہت سی مشقت سےبچ جائیں گے۔ اس بات کا احساس تب ہوتا ہے جب بندہ اپنے ملک سے فلائٹ پر بیٹھتا ہے اور بیٹھنے سے پہلے ہی آٹھ دس گھنٹے کی تھکن جمع ہوچکی ہوتی ہے، پھر ایئرپورٹ کی تمام کارروائیاں تھکادیتی ہیں، اس کے بعد سامان اٹھانے رکھنے کی مشقت الگ، ہوٹل میں کمرہ ملنے سے سامان کی سیٹنگ  کرنے تک کا معاملہ الگ، یوں اکثر لوگ عمرہ شروع کرنے سے پہلے پہلے تک کم از کم 20 یا اس سے بھی زائد گھنٹوں کی تھکن اٹھا چکے ہوتے ہیں۔ اب ایسے میں ہوٹل قریب نہ ہو تو کافی آزمائش ہوتی ہے۔

(۲)اگر ہوٹل دور ہی لے لیا تو پھر ٹیکسی کے ذریعے آنے جانے کی رقم لازمی پاس رکھیں جو کہ ایک جانب کے اکثر بیس سے چالیس ریال تک لیتے ہیں۔

(۳)اور اگر ہوٹل بھی دور لیا ہے اور  ٹیکسی کا بھی   انتظام نہیں کرسکتے  تو دل اور ذہن مضبوط رکھیں، بس سروس کی کمی کوتاہی پر صبر کریں، پیدل مسافت کو بھی صبر کے ساتھ گزاریں۔

(7)ہوٹل قریب ہو یا دور بہر صورت جب مسجد شریف  میں جائیں تو باہر ہی  واش رومز بنے ہیں، اپنے ضعیف افراد سے لازمی پوچھ لیں کہ اگر واش روم جانے کی حاجت ہو تو ضرور  چلے جائیں اور اگر پیشاب زیادہ آنے کا عارضہ ہو تو جب تک مسجد شریف میں رہنا ہو ، آب زم زم شریف صرف برکت کے لیے چکھیں، پیٹ بھر کر نہ پئیں تاکہ واش روم کی حاجت ہو تو نماز یا طواف یا سعی کے دوران باہر نہ آنا پڑے، جب مسجد شریف سے  واپس ہونے لگیں تو اب جتنا چاہیں پئیں۔

(8)عمرے جس قدر زیادہ کریں ثواب ہی ثواب ہے، اور کوشش بھی ہونی چاہئے کیونکہ کیا پتا دوبارہ کب نصیب ہو۔ البتہ اپنے بزرگوں کی صحت وغیرہ کا لازمی خیال رکھیں، اگر ان کے لئے سعی اور طواف بہت مشقت کا باعث ہو تو پھر  ان کی استطاعت کے مطابق ہی عمرے کروائیں، اس موقع پر یہ یاد رکھیں کہ   بعض عمرہ پیکجز میں طائف کی زیارت بھی شامل ہوتی ہے، اگر طائف جائیں گے تو واپسی پر میقات سے گزرنے کے لئے احرام لازمی ہے اور پھر عمرہ بھی کرنا ہوگا چنانچہ اگر بیمار اور ضعیف افراد ہمت رکھتے ہوں تو ہی طائف کی زیارت کے لئے جائیں اور اگر واپسی پر عمرہ نہیں کرسکتے تو پھر نہ جائیں، حرم شریف میں ہی رہیں۔

(9)مدینہ شریف کا ہوٹل اگر600 سے 800 میٹر تک  کی مسافت پر ہو تو پیدل جاسکتے ہیں، نیز مدینہ شریف کے پیدل سفر اور مکہ شریف کے پیدل سفر میں بہت فرق ہے، مدینہ شریف میں پیدل سفر کرکے جائیں گے بھی تو جا کر مسجد شریف میں بیٹھنا ہے، گنبد خضریٰ شریف کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کرنی ہیں جبکہ مکہ شریف میں احرام کی حالت ہو تو طواف اور سعی  بھی کرنی ہے اور اگر مدینہ شریف میں ہوٹل دوری پر ہو یعنی شٹل سروس ہو تو بھی اتنا مسئلہ نہیں ہے، البتہ کوشش کریں کہ قریب میں ہی ملے۔

(10)کھانے کے حوالے سے بھی کچھ آزمائش کے معاملات ہوتے ہیں لیکن اتنے زیادہ نہیں،   اکثر ہوٹلوں پر 6سے 12 ریال تک ہر طرح کی سبزی، دال، گوشت وغیرہ مل جاتی ہے جس  کے ساتھ تین بڑی روٹیاں بھی ہوتی ہیں اور دو روٹیاں مزید ایک ریال کی لے لی جائیں تو  زیادہ بھوک ہو تو تین اور کم ہو تو چار لوگ بہ آسانی کھا لیتے ہیں۔

(11)بزرگ اور بیمار افراد کے لئے ان کی طبیعت کے موافق اور ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق ضروری ادویات بھی لے جائیں۔ ادویات بہت زیادہ نہ رکھیں اور جتنی بھی رکھیں کسی مستند ڈاکٹر سے مریض کے نام کا نسخہ لکھوا کر  دستخط  اور مہر  والا بِل بھی رکھ لیں۔ بخار، نزلہ، جسم درد کی نارمل ادویات لازمی رکھیں  اور یہ سب ہینڈ کیری بیگ میں نہ رکھیں بلکہ بڑے بیگ میں رکھیں۔

(12)کھانے کے حوالے سے  کوشش کیجئے کہ اپنے ساتھ جمع کرکے لے جانے کی بجائے وہیں سے تازہ خریدیں، کھانے کا اتنا زیادہ خرچ نہیں بڑھتا الا یہ کہ آپ لسی، دہی، رائتہ، سلاد، کولڈرنک اور جوس وغیرہ کے شوقین ہوں تو خرچہ بڑھ جائے گا۔

(13)چائے بنانے کے لئے پتی اور خشک دودھ ساتھ لے جائیں اور چائے بنانے کی کیٹل پہلے سے موجود نہیں ہے تو  وہیں سے خرید لیں، مناسب قیمت پر مل جاتی ہے۔

(14)   سامان کی پیکنگ میں  بھی احتیاط لازم ہے، اپنی ایئر لائن کا معلوم کرلیں کہ کتنا وزن لے جانے کی اجازت ہے، اگر آپ کو 50کلو وزن کی بھی اجازت ہو تو بھی  آپ دو ہی بیگ تیار کر سکتے ہیں جن میں سے ہر ایک 22  کلو سے اوپر ہر گز نہیں ہونا چاہئے اور دو سے زیادہ لگیج نہیں ہونے چاہئیں، وگرنہ اضافی چارجز دینے پڑیں گے۔

(15)جاتے وقت سامان کم سے کم رکھنے کی کوشش کریں، بالخصوص کپڑے وغیرہ ضرورت ہی کی حد تک رکھیں، ہر روز نیا جوڑا پہننے کے چکر میں وزن نہ بڑھائیں، کیونکہ جاتے وقت جتنا سامان کم ہوگا، اتنی تھکن کم اور عمرہ فریش حالت میں کرنے کا موقع ملے گا اور واپسی پر زیادہ شاپنگ بھی کرلیں گے تو گزارا ہوجائے گا۔

سفرِ حرمین کی مزید بھی بہت سی احتیاطیں اور تقاضے ہیں لیکن بہت لازمی پہلوؤں کو یہاں ذکر کیا گیا ہے، اللہ کریم اس سفر کو ہم سب کے لئے  آسان فرمائے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* ایم فل اسکالر/فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ، ایڈیٹر ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی


Share