میدانِ محشر کے ملجا و ماویٰ

سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی ( قسط : 22 )

میدانِ حشر ملجا و ماویٰ

*مولانا ابو الحسن عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ دسمبر2022ء

  ( 43 ) اَنَا اَوَّلُ شَافِعٍ وَ اَوَّلُ مُشَفَّعٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ ترجمہ : میں ہی پہلا شفاعت کرنے والا ہوں اور قیامت کے دن میری ہی شفاعت سب سے پہلے قبول کی جائے گی اور یہ فخریہ نہیں کہتا۔[1]

اس حدیثِ مبارکہ میں رسولِ رحمت ، حضور خاتمُ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے شفیع و شافع اور سب سے پہلے شفاعت کرنے والے ہونے کا بیان ہوا ہے اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اسمائے طیبہ میں سے ایک بڑا ہی پیارا نام  ” شافع “  بھی ذکر ہوا ہے جس سے ہم گناہگاروں کو رحمتِ ربِّ کائنات پانے کی ڈھارس بندھتی ہے۔

شَفاعت کے لغوی معنیٰ وسیلہ اور طلب کے ہیں جبکہ شرعی طور پر کسی دوسرے کے لئے خیر مانگنا شفاعت کہلاتا ہے۔[2]

شفاعت کا موضوع دینِ اسلام میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ یہود و نصاریٰ نے شفاعت و سفارش کے مفہوم و معنیٰ میں بہت زیادہ غلو کیا جبکہ مسلمان کہلانے والے بعض حرمان نصیبوں نے اس کا سرے ہی سے انکار کردیا اور بعض نے مانا لیکن بہت مبہم اور عجیب انداز میں ، جبکہ شریعتِ اسلامیہ میں اس کا عقیدہ رکھنا واجب ہے[3]   بلکہ  بحرالرائق میں تو  ہے کہ ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم شفاعت فرمائیں گے اور جو نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شفاعت کا منکر ہو اس کے پیچھے نماز جائز نہیں اس لئے کہ وہ کافر ہے۔[4]

عقیدہ شفاعت میں تو یہ بھی شامل ہے کہ صرف حضور خاتمُ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہی نہیں بلکہ آپ کے علاوہ انبیا و ملائکہ اور عُلَما و شُہدا ، صالحین اور کثیر مؤمنین ، قراٰنِ مجید ، روزے اور کعبۃُ اللہ وغیرہ سب شفاعت کریں گے اور یہ عقیدہ رکھنا واجب ہے۔[5]

اس مقام پر عاشقِ سیّدِ عالَم ، امامِ عشق و محبت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ لکھتے ہیں : اللہ پاک کی بارگاہ میں بلاواسطہ شفاعت قراٰنِ کریم اور نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ہوگی۔ اسی لئے روزِ قِیامت تمام شفاعت کرنے والے فرشتے ، انبیائے کرام علیہمُ الصّلوٰۃ والثناء ، اولیا وعُلما ، حفّاظ و شُہَدا اور حجاج و صُلَحا کی شفا عت نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں ہوگی۔ ان کی رسائی انہی تک ہو گی ، نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ان لوگوں کی شفاعت بھی فرمائیں گے جن کا ذِکْر ان حضرات نے کیا ہوگا اور اُن کی بھی شفاعت فرمائیں گے جن کا ذکر نہ کیا ہوگا۔ ہمارے نزدیک یہ معنی احادیث سے مؤکّد ہے۔[6]

اسی بات کو امامِ اہلِ سنّت رحمۃُ اللہ علیہ منظوم انداز میں یوں بیان فرماتے ہیں           ؎

سب تُمہارے در کے رَستےایک تم راہِ خُداہو

سب تمہارےآگے شافِع       تم حضورِکبرِیا ہو

سب کی ہے تم تک رَسائی      بارگَہ تک تم رَساہو[7]

محشر کے ہولناک حالات میں سب سے پہلے شفاعت فرمانے والے ہمارے پیارے نبی حضرت محمدِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہی ہوں گے کیونکہ جب تک حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم شفاعت کا دروازہ نہیں کھولیں گے کسی کو بھی شفاعت کی اجازت نہ ہوگی۔

حضور نبیِّ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا سب سے پہلے شفاعت فرمانا مقامِ شفاعتِ کبریٰ ہے جیسا کہ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ لکھتے ہیں : شفاعت دو قسم کی ہے : شفاعتِ کُبریٰ اور شفاعتِ صُغریٰ۔ شفاعتِ کُبریٰ صرف حضور  ( صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم )  کریں گے ، اس شفاعت کا فائدہ ساری خَلْقَت حتّٰی کہ کفّار کو بھی پہنچے گا کہ اس شفاعت کی برکت سے حساب کتاب شروع ہوجاۓ گا اور قِیامت کے میدان سے نَجات ملے گی ، یہ شفاعت حضور ہی کریں گے ، اس وقت کوئی نبی اس شفاعت کی جرأت نہ فرمائیں گے۔ شفاعتِ صُغریٰ ظہورِ فضل کے وقت ہو گی ، یہ شفاعت بہت لوگ بلکہ قراٰن ، رَمَضان ، خانۂ کعبہ بھی کریں گے۔حضور صلَّی اللہ علیہ وسلَّم رفعِ درجات کے لئے صالحین حتّٰی کہ نبیوں کی بھی شفاعت فرمائیں گے اور گناہوں کی معافی کے لئے ہم گنہگاروں کی شفاعت کریں گے لہٰذا آپ کی شفاعت سے انبیاءِ کرام بھی فائدہ اٹھائیں گے۔ اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنَا شَفَاعَۃَ حَبِیْبِکَ  صلَّی اللہ علیہ وسلَّم ۔ حضور کی شفاعت ہم گنہگاروں کا سہارا ہے۔[8]

حضور سیّدِعالَم ، جنابِ محمد مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شفاعت کئی طرح کی ہوگی ، چنانچہ شیخِ محقق شاہ عبدُالحقّ مُحَدِّث دِہلَوی رحمۃُ اللہ علیہ لکھتے ہیں : شَفاعت کی پہلی قسم شَفاعَتِ عُظْمیٰ ہے۔ دوسری قسم کی شَفاعت ایک قوم کو بے حساب جنَّت میں داخِل کروانے کے لئے ہوگی اور یہ شَفاعت بھی ہمارے نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے ثابِت ہے اور بعض عُلَمائے کرام کے نزدیک یہ شَفاعت حُضُورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہی کے ساتھ خاص ہے۔ تیسری قسم کی شَفاعت اُن لوگوں کے بارے میں ہوگی کہ جن کی نیکیاں اور بُرائیاں برابر برابر ہوں گی اور شَفاعت کی مدد سے جنَّت میں داخِل ہوں گے۔ چوتھی قسم کی شَفاعت اُن لوگوں کے لئے ہوگی جو کہ دوزخ کے حق دار ہوچکے ہوں گے تو حضورِ پُرنور ، شافعِ یومُ النُّشور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم شَفاعَت فرما کر اُن کو جنَّت میں لائیں گے۔ پانچویں قسم کی شَفاعت مرتبے کی بُلندی اور بُزُرگی کے اضافے کے لئے ہوگی۔ چھٹی قسم کی شَفاعت اُن گنہگاروں کے بارے میں ہوگی جو کہ جہنَّم میں پہُنچ چکے ہوں گے اور شَفاعت کی وجہ سے نکل آئیں گے اور اِس طرح کی شَفَاعت دیگر انبیائے کرام علیہمُ الصّلوٰۃ و السّلام ، فِرِشتے ، عُلَما اور شُہَدا بھی فرمائیں گے۔ ساتویں قسم کی شَفاعت جنَّت کا دروازہ کھولنے کے بارے میں ہوگی۔ آٹھویں قسم کی شَفاعت خاص کر مدینۂ منوّرہ زادھا اللہ شرفاً و تعظیماً والوں اور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے روضۂ انور کی زیارت کرنے والوں کے لئے خُصُوصی طریقے پر ہوگی۔[9]

شفاعت کی یہ تمام اقسام مختلف احادیثِ کریمہ میں بیان ہوئی ہیں ، آئیے کلامِ سرورِ کائنات کا لطف پانے اور شفاعتِ سیّدُ الکونین کی طلب و تڑپ مزید بڑھانے کے لئے 5 احادیثِ شفاعت ملاحظہ کیجئے :

 ( 1 ) خُيِّرْتُ بَيْنَ الشَّفَاعَةِ وَبَيْنَ اَنْ تَدْخُلَ نِصْفُ اُمَّتِي الْجَنَّةَ فَاخْتَرْتُ الشَّفَاعَةَ لِاَنَّها اَعَمُّ وَاَکْفٰی اَتَرَوْنَهَا لِلْمُتَّقِيْنَ؟ لَا وَلٰکِنَّهَا لِلْمُذْنِبِيْنَ الْخَطَّائِيْنَ الْمُتَلَوِّثِيْنَیعنی اللہ پاک نے مجھے اختیار دیا کہ یا تو شفاعت لو یا یہ کہ تمہاری آدھی امّت جنّت میں جائے ، میں نے شفاعت لی کہ وہ زیادہ تمام اور زیادہ کام آنے والی ہے ، کیا تم یہ سمجھ رہے  ہو کہ میری شفاعت پاکیزہ مسلمانوں کے لئے ہے؟ نہیں بلکہ وہ اُن گنہگاروں کے واسطے ہے جو گناہوں میں آلودہ اور سخت خطا کار ہیں۔[10]

 ( 2 ) شَفَاعَتِيْ لِاَهْلِ الْکَبَائِرِ مِنْ اُمَّتِي یعنی میری شفاعت میری اُمت میں اُن کے لئے ہے جو کبیرہ گناہ والے ہیں۔[11]

 ( 3 ) اِنِّي لَاَرْجُو اَنْ اَشْفَعَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَدَدَ مَا عَلَى الْاَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ وَمَدَرَةٍ یعنی میں امید کرتا ہوں کہ رُوئے زمین پر جتنے درخت اور پتّھر ہیں قیامت کے دن میں ان سب کی تعداد کے برابر لوگوں کی شفاعت کروں گا۔[12]

 ( 4 ) آتِیْ جَهَنَّمَ فَاَضْرِبُ بَابَهَا فَيُفْتَحُ لِیْ فَاَدْخُلُ فَاَحْمَدُ اللہ مَحَامِدَ مَا حَمِدَهٗ اَحَدٌ قَبْلِيْ مِثْلَه وَلَا يَحْمَدُہ اَحَدٌ بَعْدِيْ ثُمَّ اُخْرِجُ مِنْهَا مَنْ قَالَ : لَا اِلٰهَ اِلَّا اللهُ مُخْلِصاً یعنی میں جہنم کے پاس آؤں گا اور اس کے دروازے پر دستک دوں گا تو وہ میرے لئے کھول دیا جائے گا اور میں اس میں داخل ہوجاؤں گا اور وہاں خُدا کی ایسی تعریف کروں گا جو نہ مجھ سے پہلے کسی نے کی ، نہ میرے بعد کوئی کرے گا ، پھر میں دوزخ سے ہر اس شخص کو نکال لوں گا جس نے خالص دل سے لَا اِلٰهَ اِلَّا الله کہا۔[13]

  ( 5 ) لِلْاَنْبِيَاءِ مَنَابِرُ مِنْ ذَهَبٍ قَالَ فَيَجْلِسُوْنَ عَلَيْهَا وَيَبْقٰی مِنْبَرِيْ لَا اَجْلِسُ عَلَيْهِ اَوْ لَا اَقْعُدُ عَلَيْهِ قَائِمًا بَيْنَ يَدَيْ رَبِّي مَخَافَةَ اَنْ يُّبْعَثَ بِیْ اِلَی الْجَنَّةِ وَيَبْقٰی اُمَّتِيْ مِنْ بَعْدِيْ فَاَقُوْلُ : يَارَبِّ اُمَّتِيْ اُمَّتِيْ فَيَقُوْلُ اللہ عَزَّوَجَلَّ : يَا مُحَمَّد مَا تُرِيْدُ اَنْ اَصْنَعَ بِاُمَّتِكَ؟ فَاَقُوْلُ : يَا رَبِّ عَجِّلْ حِسَابَهُمْ فَمَا اَزَالُ اَشْفَعُ حَتّٰی اُعْطٰی صِکَاکًا بِرِجَالٍ قَدْ بُعِثَ بِهِمْ اِلَی النَّارِ وَآتِي مَالِکاً خَازِنَ النَّارِ يَقُوْلُ : يَا مُحَمَّدُ مَا تَرَکْتَ لِلنَّارِ لِغَضَبِ رَبِّكَ فِیْ اُمَّتِكَ مِنْ بَقِيَّةٍ یعنی انبیا کے لئے سونے کے منبر بچھائیں گے وہ ان پر بیٹھیں گے ، اور میرا منبر باقی رہے گا میں اس پر نہیں بیٹھوں گابلکہ اپنے رب کے حُضور  کھڑا رہوں گا اس ڈر سے کہ کہیں ایسا نہ ہو مجھے جنّت میں بھیج دے اور میری امّت میرے بعد رہ جائے ، پھر میں عرض کروں گا : اے میرے رب ! میری امّت ، میری امّت۔ اللہ پاک فرمائے گا : اے محمد ! تیری کیا مرضی ہے میں تیری امّت کے ساتھ کیا کروں؟ میں عرض کروں گا : اے میرے رب ! اِن کا حساب جلد فرما دے۔ پس میں شفاعت کرتا رہوں گا یہاں تک کہ مجھے اُن کی رہائی کی چٹھیاں ملیں گی جنہیں دوزخ بھیجا جا چکا تھا ، میں مالک داروغَۂ دوزخ کے پاس آؤں گا وہ عَرْض کرے گا : اے محمد ! آپ نے اپنی اُمت میں دوزخ کے لئے اپنے رب کا غضب نام کو بھی نہ چھوڑا۔[14]

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ ، ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی



[1] ترمذی ، 5 / 354 ، حدیث : 3636

[2] شرح الصاوی علی جوہرۃ التوحید ، ص400

[3] المعتقد المنتقد ، ص250

[4] البحرالرائق ، 1 / 611 ملتقطاً

[5] المعتقد المنتقد ، ص247

[6] المعتقد المنتقد ، ص240

[7] حدائقِ بخشش ، ص342

[8] مراٰۃُ المناجیح ، 7 / 403 ملتقطاً

[9] اشعۃ اللمعات ، 4 / 404 ملخصاً

[10] ابن ماجہ ، 4 / 524 ، حدیث : 4311- مسند احمد ، 2 / 366 ، حدیث : 5453 واللفظ ابن ماجہ

[11] ابوداؤد ، 4 / 311 ، حدیث : 4739- ترمذی ، 4 / 198 ، حدیث : 2443 ، 2444

[12] مسنداحمد ، 9 / 7 ، حدیث : 23004

[13] معجم اوسط ، 3 / 53 ، حدیث : 3845

[14] مستدرک للحاکم ، 1 / 242 ، حدیث : 228 ملتقطاً- معجم اوسط ، 2 / 178 ، حدیث : 2937 واللفظ مستدرک۔


Share

Articles

Comments


Security Code