Book Name:Shan O Karamaat e Ghaus e Azam
جَڑ سے کَٹ جائے گا کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے سِواکوئی مدد کر ہی نہیں سکتا ۔مزے کی بات تو یہ ہے کہ جو مسلمان مَکَّهٔ مُکَرَّمَه سے ہجرت کر کے مدینهٔ مُنَوَّرَہ پہنچے وہ مُہاجِر کہلائے اوراُن کے مددگار اَنْصَار کہلائے اور یہ ہر سمجھ دار جانتاہے کہ’’ اَنْصَار‘‘ کے لُغْوِی معنی ’’مددگار‘‘ ہیں ۔
اللّٰہ کرے دل میں اُتَر جائے مِری بات
اہلُ اللہ زندہ ہیں
اب شاید شیطان دل میں یہ’’ وسوسہ‘‘ ڈالے کہ زِندوں سے مدد مانگنا تو دُرُست ہے مگر بعدِ وَفَات مد د نہیں مانگنی چاہیے ۔ آیتِ ذَیل اوراس کے بعد والے مضمون پر غور فرمالیں گے تو اِنْ شَآءَ اللہعَزَّ وَجَلَّ اِس وَسوَسے کی جڑ بھی کٹ جائے گی ۔ چُنانچِہ پارہ 2 سورۃ البقرۃ آیت154 میں ارشاد ہوتاہے :
وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌؕ-بَلْ اَحْیَآءٌ وَّ لٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ(۱۵۴) (پ۲، البقرۃ: ۱۵۴)
تَرْجَمَۂ کنز الایمان :اورجوخُدَا کی راہ میں مارے جائیں انہیں مُردَ ہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبر نہیں ۔
جب شُہَداء کی زندگی کا یہ حال ہے تو اَنبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جوکہ شہیدوں سے مرتبہ وشان میں باِلْاِتِّفاق اعلیٰ اور برترہیں اُن کے حَیَات(یعنی زندہ) ہونے میں کیوں کرشُبہ کیا جاسکتاہے ۔ حضرتِ سیِّدُناامام بیہقی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی نے حیاتِ اَنبیا ء کے بارے میں ایک رِسالہ لکھا ہے اور ’’دَلَائِـلُ النُّبُوَّۃ‘‘ میں فرماتے ہیں کہ اَنبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام شُہَداء کی طرح اپنے ربّ عَزَّ وَجَلَّ کے پاس زِندہ ہیں ۔(اَلْحاوی لِلفتاوی لِلسُّیوطی ج۲ ص۲۶۳،دَلَائِلُ النُّبُوَّۃِ لِلْبَیْہَقِی، ج۲ ،ص ۳۸۸ دارالکتب العلمیۃ بیروت)