Book Name:Seerat e Sayyiduna Zubair bin awam
عَنْہُ کو تختۂ دارپر لٹکانے کے لیے نکلے،توآپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنےاُنسے فرمایا:”مجھے دو رَکْعَت نماز کی مُہلت دے دو۔“مُہْلت ملنے پراِنْتہائی خُشُوْع وخُضُوْع کے ساتھ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے نمازاَداکی، سَلام پھیرنے کے بعداِرشاد فرمایا:”میرادل چاہتاتھاکہ زِنْدگی کی آخری نماز کو مزید طَویل کردوں، لیکن اس لیے جلدخَتْم کردی کہ کہیں تم یہ نہ سمجھو کہ مَوْت کے ڈر سے طَوالَت سے کام لے رہا ہے۔“پھراُن سے فرمایا:میرا خاتِمہ اِسلام پر ہو رہا ہے،مجھے اب کوئی پَرواہ نہیں کہ میں کس سَمْت دار پر لٹکایا جاؤں ،کیونکہ جس پہلُو پربھی میری جان جانِ آفریں کے سِپُرد ہو گی،اس کا شُمار خُدائے وَحْدَہٗ لَاشَرِیْک کے ماننے والوں میں ہی ہوگا۔پھر آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے بے قَرار ہوکر عرض کی:”اے میرے مولیٰ! تُو جانتا ہے کہ یہاں میرا کوئی رَفیق نہیں، جو تیرے محبوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَتک میرا سلام پہنچا سکے، پس تُوخُود ہی میرا سلام پہنچادینا۔“اسی دَوْراندُشمنوںنے نیزوں کے پے دَرپے وار کرکے آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُکوشہیدکر دیا۔ اُدھر عاشِق کی سچی تڑپ کام آئی اورسرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ان کی حالت ِ زار کی خَبر ہو گئی اوریہ کیوں نہ ہوکہ
فَریاد اُمّتی جو کرے حالِ زار میں
ممکن نہیں کہ خَیْرِ بَشَر کو خبر نہ ہو
آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اِرْشاد فرمایا: ’’جو کوئی خُبَیْب کا جَسَدِ خاکی سُولی سے اُتار کر لائے گا، اُس کے لیے جَنَّت ہے۔‘‘حَضْرتِ سیِّدُنا زُبَیْر بِن عوّام(رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ) نے سرکارِ نامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دلِ بےقرار کی اس پُکار پرفوراً ”لَبَّـیْک“کہتے ہوئے عرض کی:”یَارَسُوْلَاللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ !میں اور میرے ساتھی حَضْرتِ مِقْدَاد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اس سَعَادَت کے لیے حاضر ہیں۔ جب مدینے کے تاجدارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے یہ دونوں سَفِیْر دن رات سفر کرتے ہوئے اُس مَقام پر