Book Name:Seerat e Data Ali Hajveri
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دیکھا آپ نے کہ داتا گَنْج بَخْش رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو علمِ دین حاصِل کرنے کا کس قَدَر شوق تھا؟علمِ دین کے حُصُول کی خاطِرآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے عِراق ، شام ، اورحِجازِ مُقدَّس سَمیت دس (10)سے زا ئد مَمالِک کا سَفَر کِیااوراِس راہِ پُرخار میں کئی ناخُوشگَوار واقِعات سے بھی ہَمکَنار ہوئے ، مگر صَبْرو رِضاکے پَیکر اوررَبّ تَعَالیٰ کے شُکْرگُزار رہے ۔ اب ذرا غَور کیجئےکہ ایک طرف توہمارے اَسلاف کا یہ حال تھا کہ حُصُولِ عِلمِ دِین کے ذَرائِع اِنتہِائی دُشوار ہونے کے باوُجُود یہ مُبارَک ہستیاں تَنْ دَہی (محنت ولگن)سےعلمِ دین حاصِل کرتے رہے اور لوگوں میں نیکی کی دَعوَت عام کرتے رہے ، اس کے بر عکس ہمارا معاملہ یہ ہے کہ آج اِس تَرَقِّی یافتہ دور میں جبکہ عِلمِ دین حاصِل کرنا اِنتِہائی آسان ہو چکا ہے ، تمام تر سَہُولَتوں اورآسائشوں کے باوُجُود بھی ہم علمِ دین سے دُور ہیں حتّٰی کہ فَرْض عُلُوم سیکھنے کی بھی فُرصَت نہیں ۔ ہم خُودکواور اپنی اَولاد کو دُنْیَوی فَوائِددلوانے کے لیے عُلُوم وفُنُون تو سِکھاتے ہیں تاکہ اَعلیٰ ڈِگری حاصِل کرکے ہمارا نام رَوشَن ہونے کے ساتھ ساتھ اولاد کاعارضی مُستقبل بھی روشن ہو ، مگر اَفسوس !ہمیں اپنی آخِرت سَنوارنے کی بالکل فِکْر نہیں۔ یادرکھئے ! علمِ دین سیکھنا ہر مُسَلمان مَرد وعَوْرت پر فَرْض ہے ۔
حَدیثِ پاک میں ہے : طَلَبُ العِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ۔ یعنی عِلم کاطَلَب کرنا ہر مُسَلمان مَرد(اسی طرح عَورت)پر(بھی)فَرْض ہے۔ (ابن ماجہ ، کتاب السنۃ ، باب فضل العلماء والحث الخ ، ۱ / ۱۴۶ ، حدیث۲۲۴)
شیخِ طریقت ، اَمِیْرِاہلسنّت ، بانیِ دعوتِ اسلامی ، حضرت علّامہ مَوْلانا ابُو بلال محمدالیاس عطّارقادِری رَضَوی ضِیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ فرماتےہیں : اِس حدیثِ پاک کے تَحْت میرے آقا اعلیٰ