Book Name:Bandon kay Huquq
وہ مجھے جہنَّم سے بچانے کا ذریعہ ہے،اس کی وجہ سے میرا دل حرام کی خواہش سے بچا رہتا ہے(2)میری گھر سے غیر موجودگی میں وہ میرے مال کی حفاظت کرتی ہے(3)میرے کپڑے دھوتی ہے(4)میرے بچوں کی پرورش کرتی ہے(5) میرے لئے کھانا پکاتی ہے۔اس نے کہا یہ اَوصاف تو میری بیوی میں بھی موجود ہیں،لہٰذااب میں بھی اس سے دَرگُزر کِیا کروں گا۔( تنبیه الغافلین،باب حق المراة علی الزوج،ص۲۸۰ملخـصاً)
(3)…اپنے اندراحساسِ ذِمّہ داری پیدا کیجئے اور بندوں کے حقوقکوبھی اپنی ذِمّہ داری سمجھئے،بندوں کے حقوق اَدا کرنا بھی ہر مُسَلمان کی ذِمّہ داری ہی ہے۔ہمارے اَسلاف بھی اسے اپنی ذِمّہ داری سمجھتے اور اسی سوچ میں کُڑھتے رہتے۔حضرتِ سَیِّدُنا عمر بن عبدُالعزیز رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی زوجہ کا بیان ہے کہ جب انہیں مرتَبۂ خلافت پر فائز کیا گیا تو گھر آکر مصلے پر بیٹھ کر رونے لگے، یہاں تک کہ داڑھی آنسوؤں سے تر ہوگئی، میرے پوچھنے پر اِرْشادفرمایا: میری گردن پر اُمّتِ سرکار کا بوجھ ڈال دیا گیا ہے، جب میں بُھوکےفقیروں، مریضوں، مُسافروں،بُوڑھوں،بچوں،اَلْغَرَض!تمام دُنیا کے مُصیبت زَدوں کی خبر گیری کے مُتَعَلِّق سوچتا ہوں تو ڈرتا ہوں کہ کہیں ان کے مُتَعَلِّق اللہ عَزَّ وَجَلَّ بازپُرس نہ فرمائے اور مجھ سے جواب نہ بن پڑے، بس اس بھاری ذِمّہ داری کا اِحساس اور اسی کی فکر مجھے رُلا رہی ہے۔(تاریخ الخلفاء،ص۱۸۹)
(4)…بندوں کے حقوقکی اَدائیگی اپنانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ مال و دولت کی حرص کو چھوڑ کر نیکیوں پرخُود کو حریص بنانے کی کوشش کی جائے،ہمیں نہیں معلوم کہ ہماری کون سی نیکی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی دائمی رِضا کا سبب بن جائے، اس لیے چھوٹی سے چھوٹی نیکی بھی نہ چھوڑی جائے، لوگوں سے اچھا سُلُوک