Book Name:Fazilat ka Miyar Taqwa hay
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!آئیے! اب ہم تقوے کی لُغوی و شرعی تعریف اور اس کی قسموں سے مُتَعَلِّق سُنتے ہیں اور ساتھ ساتھ یہ نِیَّت بھی کرتے ہیں کہ اس کی برکت سے گُناہوں سے بچتے ہوئے اپنے آپ کوتقویٰ و پرہیزگاری کا پیکر بنائیں گے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ
تقویٰ کا معنی یہ ہے کہ”نفس کو خوف کی چیز سے بچانا‘‘اور شریعت کی اِصْطِلاح میں تقویٰ کا معنی یہ ہے کہ نفس کو ہر اس کام سے بچانا جسے کرنے یا نہ کرنے سے کوئی شخص عذاب کا مُسْتَحق ہو جیسے کُفْر وشرک،کبیرہ گُناہوں ، بے حیائی کے کاموں سے اپنے آپ کو بچانا، حرام چیزوں کو چھوڑ دینا اورفرائض کو ادا کرنا وغیرہ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ تقویٰ یہ ہے کہ تیراخدا عَزَّ وَجَلَّ تجھے وہاں نہ پائے جہاں اس نے منع فرمایا ہے۔(تفسیرخازن،پ۱، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲، ۱/۲۲ملخصاً)
حضرت سَیِّدُنا سُفیان ثوری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ پرہیز گاروں کو مُتَّـقی اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ ایسی چیزوں سے بھی بچتے ہیں جن سے بچنا عُموماً دُشوار ہوتا ہے۔( در منثور ،پ۱،البقرۃ،تحت الآیۃ:۲،۱ /۶۱)
کسی شاعر کا کہنا ہے کہ جو شخص اللہ تعالٰی سے ڈرتا ہے وہی نَفْع والی شے حاصل کرتا ہے۔قبر میں انسان کے ساتھ صرف تقویٰ اور عملِ صالِح ہی جاتے ہیں۔(منہاج العابدین،ص۱۵۰)
آئیے!اب تقوے کی قسموں سے متعلق سنتے ہیں چنانچہ
اعلیٰ حضرت،امامِ اہلسنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کے فرمان کے مطابق