Book Name:Maut aur Qabr ki Tayyari
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! صَحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان اور بزرگانِ دِینرَحِمَہُمُ اللّٰہُ الْمُبِین تقوٰی و پرہیزگاری کے اعلیٰ درجے پر فائز ہونے کے باوجودبھی قبرو آخِرت کے مُعامَلے میں لرزاں وترساں رہا کرتے اور عذابِ قبرکے خوف سے ان کی آنکھیں اشکبار ہوجایا کرتی تھیں۔چنانچہ
اَمِیرُالْمُؤمِنین حضرتِ سیِّدُنا عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے بارے میں آتا ہے کہ جب کسی کی قَبْر پر تشریف لاتے تو اس قَدَر روتے کہ آپ کی داڑھی مبارَک تَر ہو جاتی ۔عرض کی گئی ، جنّت و دوزخ کا تذکِرہ کرتے وَقْت آپ نہیں روتے مگر قَبْر پر بہت روتے ہیں،اس کی وجہ کیا ہے؟ فرمایا: میں نے،نبیِ اکرم ، نورِ مجسَّم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سُنا ہےکہ قَبْر ،آخِرت کی سب سے پہلی منزِل ہے، ا گر صاحِبِ قَبْرنے اِس سے نَجات پائی تو بعد کا مُعاملہ اس سے آسان ہے اور اگر اس سے نَجات نہ پائی تو بعد کا مُعاملہ زِیادہ سخت ہے۔(ابنِ ماجہ،کتاب الزہد،باب ذکر القبر والبلی، ۴/۵۰۰، حدیث:۴۲۶۷ )
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!سُنا آپ نے حضرت سَیِّدُنا عُثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو قبر و آخرت کی کیسی فکر تھی حالانکہ آپ کو دُنیا ہی میں قَطعی جنّتی ہونے کی بِشارت مل چکی تھی اور ان سے معصوم فِرشتے حیا کرتے تھے۔اس کے باوُجود قَبْر کی ہولناکیوں اور اندھیریوں کے بارے میں بے انتہا خوفزدہ رہا کرتے تھے اور ایک ہماری حالت ہے کہ ہمیں اپنے ٹھکانے کا علم نہیں،اس کے باوُجود گناہوں کے دَلدَل میں اپنے آپ کو دھنساتے چلے جا رہے ہیں او ر قَبْر کی درد ناک پکار سے بالکل غافِل ہیں،یاد رکھئے! قبر ہم میں سے ہر ایک کو روزانہ پکارتی اور اپنی ہولناکی سے خبردار کرتی ہے، جیسا کہ