Book Name:Maut aur Qabr ki Tayyari
خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۚ-لَا یُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَ لَا هُمْ یُنْظَرُوْنَ(۱۶۲) (پ۲، اَلْبَقَرَۃ:۱۶۱،۱۶۲)
آدمیوں سب کی ،ہمیشہ رہیں گے اس میں ،نہ ان پر سے عذاب ہلکا ہو اور نہ انہیں مہلت دی جائے ۔
یاد رکھئے ! گناہوں کی وجہ سے بھی ایمان چھن جانے کا اندیشہ ہے چنانچہ
شرحُ الصُّدور میں ہے، بعض عُلَمائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہ ُ السَّلَام فرماتے ہیں : بُرے خاتمے کے چار اسباب ہیں۔ (۱) نماز میں سُستی(۲) شراب نوشی (۳)والدین کی نافرمانی(۴) مسلمانوں کو تکلیف دینا۔(شَرْحُ الصُّدُوْر،ص ۲۷)
مَعَاذَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ جونَماز نہیں پڑھتے یا قَضا کرکے پڑھتے ہیں ، فجر کیلئے نہیں اُٹھتے یاکسی شرعی مجبوری کے بغیر مسجِد میں باجماعت نماز پڑھنے کے بجائے گھر ہی پرنَماز پڑھ لیتے ہیں، اُن کیلئے لمحۂ فکریہ ہے ۔ کہیں نَماز میں سُستی بُرے خاتمے کا سبب نہ بن جائے ۔ اِسی طرح شراب خور، ماں باپ کا نافرمان اور مسلمانوں کو اپنی زَبان یا ہاتھ وغیرہ سے اِیذا دینے والا سچی توبہ کرلے۔
حضرتِ صَدرُا لْافاضِل مولانا سیِّدمحمد نعیم ُالدِّین مُراد آبادی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: توبہ کی اصل اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی طرف رجوع کرنا ہے،اس کے 3 رکن ہیں،ایک اعتِرافِ جرم دوسرے نَدامت ،تیسرے اِس گناہ کو ترک کر دینے کا پکّا ارادہ ۔اگر گُناہ قابلِ تَلافی ہو تو اِس کی تَلافی بھی لازِم ہے مَثَلاً بے نَمازی کی توبہ کیلئے پچھلی نَمازوں کی قضا پڑھنا بھی ضروری ہے۔(خزائن الْعرفَان، پ۱،البقرۃ:تحت الآیہ،۳۷ بتغیر قلیل)اور اگرحُقُوق العباد(یعنی بندوں کے حقوق) تَلَف کئے ہیں تو توبہ کے ساتھ ساتھ اُن کی تَلافی ضَروری ہے، مَثَلاً ماں باپ، بہن بھائی، بیوی یا دوست وغیرہ کی دل آزاری کی ہے تو اُس سے اِس طرح مُعافی مانگے کہ وہ مُعاف کر دے۔ اس قسم کے مُعاملات میں صِرف مُسکرا کر SORRY کہہ دینا سراسر بے فائدہ ہے ۔