Book Name:Shair-e-Khuda Kay Roshan Faislay
تَعَالٰی عَنْہُ نے اس پہلو کی طرف توجہ دلائی تو حضرتِ سَیِّدُنا عمر بِن خطاب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اپنا فیصلہ واپس لیا اور فرمایا:لَوْ لَا عَلِیٌّ لَھَلَکَ عُمَرُ یعنی اگر حضرت علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو جاتا۔
(الاستیعاب ،باب حرف العین،۳ /۲۰۶ملخصاً)
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ واقعات سُن کر ہم خود ہی دِینی مسائل میں قیاس آرائیاں شروع کردیں اور اپنے اندازے سے لوگوں کو مسائل بتاتے پھریں یا اپنی اَٹکل سے دینی معاملات میں لوگوں کے فیصلے کرنا شروع کردیں ،یاد رکھئے!یہ کام صرف اور صرف علما و فُقَہا کا ہے، لہٰذا ہمیں ہر حال میں شیخِ طریقت،امیراہلسنت دَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی دی گئی مدنی سوچ کے مطابق کہ عُلما و مفتیانِ کرام ہی سے رہنمائی لینی چاہئے۔آئیے امیرالمومنین حضرت سَیِّدُناعمرفاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا اس بارے میں کیا انداز ہوا کرتا تھا ملاحظہ کیجئے۔
میں وہاں نہ رہوں جہاں مولا علی نہ ہوں
حضرت سیِّدُنا ابو سعید خُدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ حج کے لیے تشریف لے گئے ، آپ نے طواف ِکعبہ کرتے ہوئے حجرِ اسود کی طرف دیکھ کر ارشاد فرمایا: میں جانتا ہوں کہ تُو صرف ایک پتھر ہے جو نہ تو نفع دے سکتا ہے اور نہ ہی نقصان اور اگر میں نے دو عالم کے مالِک و مختار، مکی مَدَنی سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تجھے چُومتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں بھی کبھی تجھے نہ چومتا۔ پھر آپ نے اسے بوسہ دیا۔ یہ سن کر مولا علی شیرِخدا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا:اے امیر المومنین! بے شک یہ پتھر نفع بھی دیتا ہے اور نقصان بھی۔