Aala Hazrat Ki Shayri Aur Ishq-e-Rasool

Book Name:Aala Hazrat Ki Shayri Aur Ishq-e-Rasool

سِتَم کِیا کیسی مَت کٹی تھی قمر! وہ خاک اُن کے رہ گُزر کی

اُٹھا نہ لایا کہ مَلتے مَلتے یہ داغ سب دیکھتا مٹے تھے

(حدائقِ بخشش، ص۲۳۲)

                             یعنی اے چاند تمہاری عقل کو کیا ہوا کہ اتنا بڑا ستم کر بیٹھے، جب معراج کی رات آقا کریم، رسولِ عظیم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ آسمانوں کی سیر کےلیے تشریف لائے تھے تو ان کے رہ گزر کی خاک لے جاتے اور اپنے داغوں پر ملتے رہتے۔ تمہارا اس خا ک کو ملنا تھا کہ تمہارے سارے داغ ختم ہو جاتے۔

                             (3)ایک اور جگہ سرکارِ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اس چاند کو رسولِ اکرم، نورِ مُجَسَّم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بچپنے کا کھلونا قرار دیتےہیں۔ جس میں اس حدیثِ پاک کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت عبّاس رَضِیَ اللہُ عَنْہُفرماتے ہیں کہ میں نے عرْض کی: یَارَسُوْلَاللہ!صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ مجھے تو آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی علاماتِ نُبُوَّت نے دِینِ اِسلام میں داخل ہونے کی دعوت دی تھی۔میں نے دیکھا کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ گہوارے (پنگھوڑے)میں چاند سے باتیں کرتے اور اپنی اُنگلی سے جس طرف اشارہ فرماتے ، چاند اُسی طرف جُھک جاتا۔(جمع الجوامع، ۳/۲۱۲، حدیث:۸۳۶۱)اسی لیے اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:

چاند جھک جاتا جِدھر اُنگلی اٹھاتے مَہد میں

کیا ہی چلتا تھا اشاروں پر کھلونا نور کا

(حدائقِ بخشش، ص۲۴۹)

                             (4)ان سب کے باوجود ایک اور مقام پر فرماتے ہیں :

ماہِ مَدینہ اپنی تَجَلِّی عطا کرے!