Book Name:Aala Hazrat Ki Shayri Aur Ishq-e-Rasool
رنگ میں سمجھایا گیا ہے۔ ان مناظر میں سے ایک سورج بھی ہے۔ یہی سورج ہے جو تمام جہاں کو اپنے نور سے روشن کررہا ہے، یہی سورج ہے جو ہزاروں سال سے دنیا کو جگمگا رہا ہے مگر اس کا نور کم نہیں ہو رہا۔ یہی سورج ہے جو ہر روز آ کر نور کی خیرات بانٹنا شروع کر دیتا ہے۔ یہی سورج ہے کہ جس کے آنے جانے سے دنیا کا نظام چل رہا ہے، اس سورج کو کائنات کے مناظر میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی عشق کی کتاب میں اس سورج کی حقیقت کیا ہے، جب سرکارِ دو عالم، نورِ مجسم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی جود و سخاوت کی بات چل رہی تھی تو فرماتے ہیں:
جس کو قُرصِ مہر سمجھا ہے جہاں اے مُنْعِمُو!
اُن کے خوانِ جُود سے ہے ایک نانِ سوختہ
(حدائقِ بخشش،ص۱۳۶)
یعنی اے تاجدارو! اے بادشاہو! سارا جہاں جسے سورج کی ٹکیا کہتا ہے، لوگ جسے آفتاب کہہ کر پکارتے ہیں، سورج کا نام جسے دیا جاتا ہے، یہی سورج اور یہی آفتاب جانِ عالم، نورِ مجسم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دستر خوان کی جلی ہوئی روٹی ہے، ذرا سوچو کہ جس کریم آقا، مدینے والے مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دسترخوان کی جلی ہوئی روٹی سے کائنات کا گزارہ ہو رہا ہے تو ان کے دستر خوان کی وہ روٹیاں جو جلن سے محفوظ ہیں ان کا کیا حال ہوگا۔ اور جس محبوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی جلی ہوئی روٹی کی طرف دیکھنے سے آنکھیں چُنْدِھیا جاتی ہیں اس کے اپنے چہرۂ مبارک کے انوار کا عالَم کیا ہوگا؟ کسی شاعر نے کیا ہی خوب کہا ہے:
قدموں میں جبیں کو رہنے دو چہرے کا تصوّر مشکل ہے
جب چاند سے بڑھ کر ایڑی ہے تو رُخسار کا عالَم کیا ہوگا