Book Name:Aaqa Ki Dunyia Say Be Raghbati
ہائے حُسْنِ عَمَل نہیں پلّے حشر میں میرا ہو گا کیا یارَبّ !
خوف دوزخ کا آہ ! رحمت ہو خاکِ طیبہ کا واسطہ یارَبّ !
دِل کا اُجْڑا چمن ہو پھر آباد کوئی ایسی ہَوَا چلا یارَبّ ! ( [1] )
صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب ! صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد
صحابئ رسول حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ عنہ فرماتے ہیں : ایک روز مَیں نے دیکھا ؛ سرورِ ذیشان ، مکی مدنی سلطان صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم کھجورکی چٹائی پر آرام فرما ہیں اور آپ کے پہلو مبارک پر چٹائی کے نشان پڑ گئے ہیں ، میں نے عَرْض کیا : یَا رسولَ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم ! ہمیں اجازت دیجئے ! اس چٹائی پر کوئی بستر بچھا دیا کریں تاکہ آپ سکون سے آرام فرما ہو سکیں۔ یہ سُن کر رحمتِ دارَین ، مالِکِ کونَیْن صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا : میرا دُنیا سے کیا تعلق... ؟ میری اور دُنیا کی مثال تو ایسی ہے جیسے کوئی مُسَافِر سخت گرمی کے دِن سَفَر کر رہا ہو ، اس دوران وہ کسی درخت کے نیچے ٹھہرے ، کچھ دیر آرام کرے ، پھر اپنی راہ چلا جائے۔ ( [2] )
ہے چٹائی کا بچھونا ، کبھی خاک ہی پہ سونا کبھی ہاتھ کا سرہانا مدنی مدینے والے !
تری سادگی پہ لاکھوں ، تری عاجزی پہ لاکھوں ہوں سلامِ عاجزانہ مدنی مدینے والے ! ( [3] )
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب ! صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد
پیارے اسلامی بھائیو ! یہ حقیقت ( Reality ) ہے ، ہم سب مُسَافِر ہیں ، یہ دُنیا گویا بیچ