Book Name:Insan Aur Mansab e Khilafat

کاروں، کوٹھیوں کا شوق ہے...!! مان لیا کہ یہ سب چیزیں ایک حد تک دُنیا کی ضروریات میں سے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ ہم اپنے اَصْل منصب، اپنے پہلے تعارُف کو بُھول ہی جائیں۔ اگر ہمیں اس چیز کا احساس ہو جائے، ہم دِل سے تسلیم کر لیں کہ میرا اَصْل منصب خِلافت (یعنی زمین پر اللہ پاک کے احکام نافِذ کرنے کے لئے طاقت بھر کوشش کرنا) ہے، پِھر ہم ڈاکٹر کی کُرسی پر بیٹھ کر بھی یہ کام کر سکتے ہیں، پائلٹ بن کر بھی نیکی کی دعوت عام کر سکتے ہیں، دورانِ تجارت بھی اپنی اور دوسروں کی اِصْلاح کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ ضرورت صِرْف اس بات کی ہے کہ ہم اپنے اس منصب کا احساس اپنے اندر پیدا کر لیں۔

مجھے اللہ پاک نے محتسب بنایا ہے

حُضُور غوثِ اعظم شیخ عبدُ القادِر جیلانی رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کے والدِ محترم حضرت موسیٰ جنگی دوست رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کا واقعہ بڑا مشہور ہے، آپ نیکی کی دعوت دینے اور بُرائی سے منع کرنے میں بہت مشہور تھے، ایک دِن آپ مسجد کی طرف جا رہے تھے کہ راستے میں خلیفۂ وقت کے چند ملازِم دیکھے جو شراب کے مٹکے اُٹھائے جا رہے تھے، آپ کی غیرتِ ایمانی کو یہ بات گوارا نہ ہوئی، لہٰذا آپ نے جلال میں آ کر وہ مٹکے توڑ دئیے۔ یہ بات خلیفہ تک پہنچ گئی۔ خلیفہ بہت غُصّے ہوا اور چِلّا کر کہا: موسیٰ (رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ) کو فورًا دربار میں پیش کرو! پیغام پہنچ گیا، آپ تشریف لے آئے۔ خلیفہ نے للکار کر کہا: آپ ہوتے کون ہیں میرے مُلازموں کی محنت ضائع کرنے والے؟ آپ نے بڑے اطمینان سے فرمایا: میں مُحْتَسِب (یعنی نیکی کی دعوت دینے اور بُرائی سے روکنے والا) ہوں اور میں نے اپنا فرضِ منصبی ادا کیا ہے۔ خلیفہ بولا: آپ کو کس نے مُحْتَسِب مقرر کیا ہے؟ فرمایا: اسی (رَبِّ قدیر) نے، جس نے