Book Name:Ikhtiyarat e Mustafa
کرو (کہ وہ قُربانی نہ ہوئی)تو انہوں نے عَرْض کی:یَارَسُوْلَاللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ!اب تو میرے پاس چھ(6) مہینے کا بکری کا بچہ ہے جو کہ ایک سال کی بکری سے بہتر ہے ۔نبیِ پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : اِجْعَلْهَا مَكَانَهَا،وَلَنْ تَجْزِيَ عَنْ اَحَدٍ بَعْدَكَ یعنی اُس کی جگہ اِسے ذبح کر دو ،مگر تمہارے بعد کسی اَور کے لئے ایسا کرنا ہرگز کافی نہ ہوگا۔([1])
پیارے اسلامی بھائیو! یاد رہے کہ شہر میں قُربانی کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ نمازِ عید اَدا ہونے کے بعد ہی قُربانی کرے جیسا کہ بہارِ شریعت میں ہے کہ شہر میں قُربانی کی جائے تو شرط یہ ہے کہ نماز ہوچکے ،لہٰذا نمازِ عید سے پہلے شہر میں قُربانی نہیں ہوسکتی۔([2]) مگر چونکہ حضرت ابُوبُردہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے نمازِ عید سے پہلے ہی قُربانی کر لی تھی ،اسی لئے حُضورنبیِ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں دوسرے جانور کی قُربانی کا حکم ارشاد فرمایا ۔اُن کے پاس چونکہ اب صرف چھ(6) مہینے کا بکری کا بچہ ہی رہ گیا تھا، حالانکہ قُربانی کے لئے بکرے، بکری کا ایک سال کا ہونا ضروری ہے، جیساکہ صدرُ الشَّریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمیرَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: قُربانی کے جانور کی عمر یہ ہونی چاہئے، اُونٹ پانچ (5) سال کا،بکری ایک سال کی، اِس سے عُمر کم ہو تو قُربانی جائز نہیں، زیادہ ہو تو جائز بلکہ افضل ہے، ہاں دُنبہ یا بھیڑ کا چھ(6) ماہ کا بچّہ اگر اتنا بڑا ہو کہ دُور سے دیکھنے میں سال بھر کا معلوم ہوتا ہو تو اُس کی قربانی جائز ہے۔([3]) چونکہ حضرت ابُو بُردہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے پاس صرف بکری کا چھ(6) ماہ کا بچہ ہی تھا، جس کی قُربانی نہیں ہو سکتی تھی، مگر جب انہوں نے اپنی اِس پریشانی کا تذکرہ حضورِ اکرم،نُورِ مجسم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کِیا تو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صرف اُنہی کو چھ(6) ماہ کی بکری کی قُربانی کرنے کی اِجازت دیتے ہوئے فرمایا کہ تمہارے بعد آئندہ کسی کے لئے چھ(6) ماہ کی بکری کی قُربانی کرنا کافی نہ ہوگا ۔