Book Name:Ikhtiyarat e Mustafa
گہوارے (یعنی جُھولے) میں چاند سے باتیں کرتے اوراپنی اُنگلی سے اُس کی جانب اشارہ کرتے تو جس طرف آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ اِشارہ فرماتے، چاند اُس جانب جُھک جاتا۔ حُضُور پُر نُور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: میں چاندسے باتیں کرتاتھااور چاندمجھ سے باتیں کرتا تھا،وہ مجھے رونے سے بہلاتا تھا اور جب چاند عرشِ الٰہی کے نیچے سجدہ کرتا تواُس وقت میں اُس کی تَسْبِیْح کرنے کی آواز سُنا کرتاتھا۔ (الخصائص الکبرٰی ج 1،ص ۹۱)
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمّد
خیبر کے قریب مقامِ صہبا میں حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نمازِ عصر پڑھ کر حضرت علی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی گود میں اپنا سرِ اَقْدَس رکھ کر سو گئے اور آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر وحی نازل ہونے لگی۔حضرت علی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سرِاَقْدَس کو اپنی آغوش میں لئے بیٹھے رہے۔ یہاں تک کہ سورج غُروب ہوگیا اور آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ معلوم ہوا کہ حضرت علی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی نمازِ عصر قضا ہوگئی تو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ دُعا فرمائی کہ یااللہ پاک! یقیناً علی تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں تھے،لہٰذاتُو سُورج کو واپس لوٹا دے تاکہ علی نمازِ عصر اَدا کرلیں۔ حضرت اَسماء بنتِ عُمَیْس رَضِیَ اللہُ عَنْہَا فرماتی ہیں کہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ڈُوبا ہوا سورج پلٹ آیا اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر اور زمین کے اوپر ہر طرف دُھوپ پھیل گئی۔([1])
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمّد
پیارے اسلامی بھائیو!آپ بھی دعوتِ اسلامی کے اس پیارے پیارے دینی ماحول سے وابستہ ہوجائیے ، اِن مبارک ساعتوں میں، ربیع الاول کے بابرکت مہینے کی خوشی میں ربیع الاوّل میں بلکہ ہو سکے