روزوں کی قضا کے بجائے فدیہ کون دے
سکتا ہے؟
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے
کے بارے میں کہ میرے والد صاحب جن کی عمر تقریباً 65 سال ہے اور وہ دل کے مریض بھی
ہیں اور کیفیت یہ ہے کہ وہ روزہ رکھنے سے لاچار ہیں ان کے لئے شریعتِ اسلامیہ میں
کیا حکم ہے؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ
الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اس طرح کے افراد کے لئے شریعت کا حکم یہ ہے کہ اگر یہ اندیشہ
ہو کہ مرض بڑھ جائے گا یا دیر سے اچھا ہوگا تو اجازت ہے کہ اس دن روزہ نہ رکھے
بلکہ بعد میں اس کی قضا کرلے اور صرف اپنے خیال کا اعتبار نہ کرے بلکہ غالب گمان
ہونا چاہئے اور غالب گمان اس طرح ہو سکتا ہے کہ اس کی ظاہری نشانی پائی جائے یا اس
کا ذاتی تجربہ ہو یا کسی ماہر طبیب غیر فاسق نے بتایا ہوغیر فاسق طبیب میسر نہ ہو
تو دینی ذہن رکھنے والے ڈاکٹر سے مراجعت کرے یا کوشش کرے کہ ایک سے زائد ڈاکٹر سے
رائے لےاور اگر بغیر غالب گمان کے روزہ نہ رکھا تو قضاکے ساتھ ساتھ توبہ بھی کرنا
ہوگی۔
رہی بات یہ کہ کوئی شخص رمضا ن کے روزے نہیں رکھ سکتا تو کیا
وہ فدیہ ہی دے گا مطلقاًایسا نہیں ہے اور اگر وہ قضا کے روزے گرمیوں میں نہ رکھ
سکے توگرمیوں کے بجائے سردیوں میں روزہ رکھے کیونکہ سردیوں کے دن بھی چھوٹے ہوتے ہیں
اور موسم بھی ٹھنڈا ہوتا ہے،اس میں ضروری نہیں کہ وہ مسلسل روزے رکھے کہ بعض مریض
اس کی طاقت نہیں رکھتے بلکہ چھوڑ چھوڑ کر بھی رکھ سکتا ہے اور جتنے روزے قضا ہوئے ان
کی تعداد پوری کرے۔ اور اگر وہ سردیوں میں بھی روزہ نہیں رکھ سکتے تو انتظار کریں
گے یہاں تک کے بڑھاپے میں پہنچ کر ایسی کیفیت ہو جاے کہ روزہ رکھنے کی سکت نہ رہے کہ نہ اب روزہ رکھ سکتا ہے نہ
آئندہ روزہ رکھنے کی امید ہو تو اس کیفیت پر پہنچے شخص کو شیخِ فانی کہتے ہیں۔ اور شیخِ فانی کے لئے حکم یہ ہے کہ ایک روزے کے
بدلے میں فدیہ دے یعنی دو وقت ایک مسکین کو پیٹ
بھر کے کھانا کھلائے یا ایک صدقہ فطر کی مقدار کسی مسکین کو دے۔ صدقہ فطر کی مقدار
دو کلو سے 80گرام کم گندم (یعنی ایک کلو 920 گرام) یا اس کا
آٹا یا اس کی رقم ہے۔لیکن یاد رکھیے کہ اگر فدیہ دینے کے بعد اتنی طاقت آگئی کہ اب
روزہ رکھ سکتا ہے تو یہ فدیہ یا صدقہ نفل ہو جائیں گے اور اس کے لئے ان روزوں کی
قضا کرنی ہو گی۔
(ماخوذ از درمختار،ج3،ص463، ردالمحتار،ج3،ص471، بہارِ شریعت،ج 2،ص1006)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ
رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
روزہ ٹوٹنے کی دو صورتوں کی عِلّت
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارےمیں کہ فیضان
ِرمضان میں یہ مسئلہ ہے کہ سحری کا نوالہ منہ میں تھا کہ صبح طلوع ہوگئی یا بھول
کر کھا رہا تھا، نوالہ منہ میں تھا کہ یاد آگیا اور نگل لیا تو دونوں صورتوں میں
کفارہ واجب، مگر جب منہ سے نکال کر پھر کھایا ہو تو صرف قضا واجب ہوگی کفارہ نہیں۔
اس مسئلہ کے حوالہ سے یہ ارشاد فرمائیے کہ
منہ سے نکالے بغیر نگل لیا تو کفارہ واجب ہے اور منہ سے نکال کر پھر کھایا تو صرف
قضا ہے کفارہ نہیں،حکم میں فرق کیوں ہے؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ
الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پہلی صورت میں کفارہ اس لئے واجب ہےکہ جب تک لقمہ منہ میں ہے
تو اسے لذت کے طورپر کھایا جاتاہے، اور دوسری صورت میں فقط قضا ہے کفارہ نہیں، اس
لئے کہ لقمہ منہ سے نکالنے کے بعد بطورِ لذت نہیں کھایاجاتا بلکہ طبیعت اس کے
کھانے سے پرہیز کرتی ہے۔(ماخوذاز منحۃ السلوک،ج1،ص263،
بدائع الصنائع،ج2،ص645)
وَاللہُ
اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
حالتِ روزہ میں تھوک نگلنا کیسا؟
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ان مسائل کے بارے میں کہ بات
کرتے وقت اگر ہونٹ پر تھوک آگیا اور وہ نگل لیا گیا تو کیا روزہ ٹوٹ گیا ؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ
الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ
الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
بات کرتے وقت یا اس کے علاوہ ہونٹ تھوک سے تَر ہوگئے تو اس
تھوک کو نگلنے سے روزہ نہیں ٹوٹے گا۔ البتہ ایسے تھوک کو نگلنے میں احتیاط کی
جائے۔(ماخوذ
از فتاویٰ عالمگیری،ج1،ص303، بہارِ شریعت،ج1،ص983)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ
رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
روزہ دار کا قے آنے کے بعد
کھانا پینا؟
سوال:کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے
کے بارے میں کہ ایک شخص کو روزے کی حالت میں خود بخود منہ بھرقےآئی، اس کا خیال
تھا کہ قے آنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، لہٰذا اس نے قے کے بعد جان بوجھ کر پانی پی لیا۔
مذکورہ صورت میں روزے کے بارے میں کیا حکم ہے؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ
الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ
الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
خودبخود قے آنے سے روزہ نہیں ٹوٹتااگرچہ کتنی ہی قے آئے۔ اگر
ایسی قے آنے کے بعد کسی نے یہ جان کر کہ اس طرح تو روزہ ٹوٹ گیا کچھ کھا پی لیا
تو اب روزہ ٹوٹ جائے گا لیکن اس صورت میں اسے
روزے کی صرف قضا رکھنی پڑے گی کفارہ نہیں ہو گا ۔(ماخوذ از در
مختار،ج3،ص431، بہارِ شریعت،ج1،ص989)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ
رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
حالتِ روزہ میں کھٹی ڈکا ر آنا
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر
کسی کو سحری کا وقت ختم ہونے کے چند منٹ بعدکھٹی ڈکار آئے ،جس کی وجہ سے حلق میں
پانی محسوس ہو اور وہ حلق سے واپس چلاجائے توکیا ایسی صورت میں روزہ ٹوٹ جا ئے گا
؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ
الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
کھٹی ڈکار آنے سے روزہ نہیں ٹوٹے گا اگرچہ ڈکار آنے سے پانی
حلق تک آجائےاور واپس بھی لوٹ جائے جیسا کہ روزے کی حالت میں منہ بھرسے کم قے آنے اورواپس
چلی جانے کی صو رت میں روزہ نہیں ٹوٹتا۔
(ماخوذاز رد المحتار،ج3،ص450،فتاویٰ ر ضویہ،ج10،ص486،بہارِ شریعت،ج1،ص988)
وَاللہُ
اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
Comments