وکالت کا پیشہ اختیار کرنا کیسا؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ وکالت کا پیشہ اختیار
کرنا، جائز ہے یا نہیں؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ
ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: وکالت کا پیشہ فی نفسہٖ
جائز ہے کیونکہ ہر شخص اپنا مؤقف پیش کرنے، اس کو ثابت کرنے کے لیے دلائل دینے اور
اپنا حق وصول کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، نیز بعض اوقات کورٹ کچہری جانے میں ذلت
سے بچنا بھی مقصود ہوتا ہے۔ لہٰذا شریعتِ مطہرہ نے اپنی طرف سے کسی دوسرے کو مقدمے
کی پیروی کا وکیل بنانے کی اجازت دی ہے اور یہ طریقہ قدیم زمانے سے چلا آرہا ہے۔
وکیل سے مخاصمہ کرنے کے متعلق
حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں: ”طلقنی
زوجی ثلاثاً، ثم خرج الی الیمن، فوکل اخاہ بنفقتی، فخاصمتہ الی رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم“ ترجمہ:میرے شوہر مجھے
تین طلاقیں دے کر یمن چلے گئے اور اپنے بھائی کو میرے نفقے کا وکیل بنایا تو میں
نے رسولاللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں، ان (شوہر کے بھائی) سے مخاصمہ کیا۔(کتاب الاصل ،ج11،ص205)
حضرت علی رضی
اللہ تعالٰی عنہ سے ثابت ہے کہ وہ تنازعات میں اپنی
طرف سے دوسرے کو وکیل بنایا کرتے تھے۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی
اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں: ”کان
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ یکرہ
الخصومۃ فکان اذا کانت لہ خصومۃ وکل فیھا عقیل بن ابی طالب فلما کبر عقیل وکلنی“ ترجمہ: حضرت علی بن
ابوطالب رضی اللہ تعالٰی عنہ جھگڑے کو ناپسند فرماتے تھے، لہٰذا جب ایسا موقع درپیش
ہوتا تو حضرت عقیل بن ابو طالب رضی اللہ تعالٰی عنہ کو وکیل بنا دیتے تھے پھر جب حضرت عقیل کی عمر زیادہ
ہوگئی تو مجھے وکیل بنایا۔(سنن الکبری للبیہقی،ج 6، ص134)
تنازعات پر وکیل بنانے کے جواز اور حکمت کے متعلق امام سرخسی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں: ”اذا وکل الرجل بالخصومۃ فی شئ فھو جائز لانہ یملک المباشرۃ بنفسہ فیملک ھو صکہ الی غیرہ لیقوم فیہ مقامہ وقد یحتاج لذلک اما لقلۃ ھدایتہ او لصیانۃ نفسہ عن ذلک الابتذال فی مجلس الخصومۃ وقد جری الرسم علی التوکیل علی ابواب القضاء من لدن رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم الی یومنا ھذا من غیر نکیر منکر وزجر زاجر“ ترجمہ: جب کوئی شخص کسی جھگڑے میں وکیل بنائے تو یہ جائز ہے کیونکہ وہ خود یہ کام کرسکتا ہے تو کسی اور سے کروانے کا اختیار بھی رکھتا ہے تاکہ دوسرا اس کے قائم مقام ہو جائے، بسا اوقات وکیل بنانے کی ضرورت اس لئے بھی ہوتی ہے کہ مؤکل کو پوری سمجھ نہیں ہوتی یا کورٹ میں ذلت سے بچنا مقصود ہوتا ہے۔ بہرحال فیصلوں میں وکیل بنانے کا جواز نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم کے زمانۂ مبارکہ سے آج تک بغیر کسی انکار کے رائج ہے۔(مبسوط سرخسی،ج19، ص6)
معاہدۂ اجرت کے شرعی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے وکیل مقدمہ لڑنے کی اجرت لے سکتا ہے۔ جیسا کہ درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے: ”لو وکل احد آخر بالمحاکمۃ والمخاصمۃ مع آخر وبین وقت مدۃ معینۃ للخصومۃ والمرافعۃ وقاولہ علی اجرۃ کانت الاجارۃ صحیحۃ ولزم الاجر“ ترجمہ: اگر کسی نے دوسرے کو جھگڑے کا فیصلہ کروانے کا وکیل بنایا اور معاملہ بیان کرکے مقدمے کے وقت کو معین کردیا اور وکیل نے اجرت پر یہ کام کیا تو اجارہ صحیح ہے اور اجرت لازم ہوگی۔(درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام،ج3، ص594)
وکالت
کے جواز کے متعلق صدرالشریعہ بدرالطریقہ حضرت علّامہ مولانا مفتی محمد
امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے
ہیں: انسان کو اللہ تعالیٰ نے مختلف
طبائع عطا کیے ہیں، کوئی قوی ہے اور کوئی کمزور، بعض کم سمجھ ہیں اور بعض عقلمند،
ہر شخص میں خود ہی اپنے معاملات کو انجام دینے کی قابلیت نہیں، نہ ہر شخص اپنے
ہاتھ سے اپنے سب کام کرنے کیلئے تیار، لہٰذا انسانی حاجت کا یہ تقاضا ہوا کہ وہ
دوسروں سے اپنا کام کرائے ۔۔۔ حقوق العبد جو شبہہ سے ساقط نہیں ہوتے، ان سب میں
وکیل بالخصومۃ بنانا درست ہے، وہ حق از قبیل دین ہو یا عین۔“(بہار شریعت،ج2، ص977 تا 973)
یاد رہے کہ ہر پیشہ کی طرح
وکیل پر بھی شریعت کے اصولوں کی پابندی لازم ہے وکیل کے لئے ضروری ہے کہ کسی کی
ناحق طرف داری، جھوٹ، دھوکا دہی، خلافِ شریعت فیصلہ کروانے، ظالم کو مظلوم اور
مظلوم کو ظالم بنانے، ناحق کسی کا حق دبانے وغیرہ ناجائز کاموں سے بچتے ہوئے کام
کرے۔ اگر گناہ کے کام پر مددگار بنے گا تو ظالم قرار پائے گا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے
تعلیمِ اُمت کیلئے اپنے محبوب صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو جو حکم دیا قرآن پاک میں ان الفاظ سے وہ حکم موجود ہے:(وَ لَا تَكُنْ لِّلْخَآىٕنِیْنَ خَصِیْمًاۙ(۱۰۵) وَّ اسْتَغْفِرِ اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاۚ(۱۰۶) وَ لَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِیْنَ یَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَهُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ مَنْ كَانَ خَوَّانًا اَثِیْمًاۚۙ(۱۰۷)) تَرجَمۂ کنز الایمان: اور دغا والوں کی طرف سے نہ
جھگڑو۔ اور اللہ سے معافی چاہو بے شک اللہ بخشنے والا مہربان
ہے۔ اور ان کی طرف سے نہ جھگڑو جو اپنی جانوں کو خیانت میں ڈالتے ہیں، بے شک اللہ نہیں چاہتا کسی بڑے
دغا باز گنہگار کو۔(پ5، النساء:105 تا 107)
معاملے
کی حقیقت جانتے ہوئے ظالم کا ساتھ دینا بہت بڑا ظلم ہے۔ چنانچہ مذکورہ بالا آیتِ
کریمہ کا شانِ نزول بیان کرکے امام جصاص رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں:
”وھذا یدل علی انہ غیر جائز لاحد ان
یخاصم عن غیرہ فی اثبات حق او نفیہ وھو غیر عالم بحقیقۃ امرہ“ ترجمہ:
یہ آیتِ مبارکہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ معاملے کی حقیقت جانے بغیر کسی کا حق
ثابت کرنے یا اس کے انکار کے لیے دوسرے سے مقدمہ لڑنا جائز نہیں۔(احکام القرآن للجصاص
،ج2، ص279)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
پانی کی خرید و فروخت کرنا کیسا؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس
مسئلہ کے بارے میں کہ پانی کی خرید و فروخت کرنا
کیسا ہے؟ نیز یہ بھی ارشاد فرمائیں کہ بعض جگہوں پر پانی لیٹر میں بیچا جاتا ہے
اور بعض جگہوں پر گیلن میں، تو اس میں سے کون سی صورت جائز ہے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ
ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: جو پانی اپنی ملکیت میں
ہو، اس کی خرید و فروخت جائز ہے۔ چنانچہ بہارِ شریعت میں ہے: ”وہ پانی جس کو
گھڑوں، مٹکوں یا برتنوں میں محفوظ کردیا گیا ہو اس کو بغیر اجازتِ مالک کوئی شخص
صَرف میں نہیں لاسکتا اور اس پانی کو اس کا مالک بیع بھی کرسکتا ہے۔“(بہارِ شریعت،ج3، ص667)
عام طور
پر بوتل یا گیلن وغیرہ جس میں پانی دیا جاتا ہے وہ خود ایک پیمانہ ہوتا ہے اور معلوم ہوتا ہے البتہ وہ بوتل کتنے لیٹر کی ہے
بعض اوقات یہ معلوم نہیں ہوتا لیکن بوتل ہمارے سامنے ہی ہوتی ہے اور یہ پتا ہوتا
ہے کہ اس بوتل میں ہم نے خریدا ہے تو یہاں بوتل خود ایک پیمانہ ہے اور
ابہام یہاں موجود نہیں ہے لہٰذا اس طرح خرید و فروخت جائز ہے۔ بہارِ شریعت میں ہے:
”اگر یہ کہہ دیا کہ مہینے میں اتنی مشکیں پلاؤ اور مشک معلوم ہے تو جائز ہے۔“(بہارِ شریعت،ج2، ص698)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭۔۔۔ دارالافتاء اہل
سنت نور العرفان ،کھارا در ،باب المدینہ کراچی
Comments