قاسمِ نعمت، مالکِ جنّت، محبوبِِ ربّ العزّت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ باعظمت ہے: اِنَّ
الْجَنَّةَ تُزَخْرَفُ لِرَمَضَانَ مِنْ رَاْسِ الْحَوْلِ اِلَى الحَوْلِ القَابِلِ، قَالَ: فَاِذَا كَانَ اَوَّلُ
يَوْمٍ مِنْ رَمَضَانَ هَبَّتْ رِيحٌ تَحْتَ الْعَرْشِِ نَشَرَتْ مِنْ وَرَقِ
الْجَنَّةِ عَلَى الْحُورِ الْعِينِ، فَيَقُلْنَ: يَا رَبِِّ اجْعَلْ لَنَا مِنْ
عِبَادِكَ اَزْوَاجًا تَقَرُّ بِهِمْ أَعْيُنُنَا وَتَقَرُّ اَعْيُنُهُمْ بِنَا۔ بے شک جَنّت
اِبتِدائی سال سے آئندہ سال تک رَمَضانُ الْمبارَک کے لئے سجائی جاتی
ہے اور فرمایا: رَمَضان شریف کے پہلے دِن عرش کے نیچے سے ایک ہوا چلتی ہے جو جَنّت
کے دَرَختوں سے ہوتی ہوئی بڑی بڑی آنکھوں والی حُوروں تک پہنچتی ہے تو وہ عَرض
کرتی ہیں: اے پروردگار! اپنے بندوں میں سے ایسے بندوں کو ہمارا شوہر بنا جن کو
دیکھ کر ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور جب وہ ہمیں دیکھیں تو اُن کی آنکھیں بھی ٹھنڈی ہوں۔(شعب الایمان، ج 3،ص 312،حدیث:3633) حدیثِ مبارکہ کا پسِ مَنْظَر حضور نبیِّ رحمت، شفیعِ
امّت، صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک بار رمضانُ المبارک کی آمد کے موقع پر ارشاد
فرمایا: اگر بندے جان لیتے کہ رمضان کیا ہے تو میری اُمّت یہ تمنا کرتی کہ پورا
سال رمضان ہی ہو، اتنے میں (قبیلۂ) بَنو خُزاعہ کے ایک شخص نے عرض کی: اے اللہ کے نبی! ہمیں بیان
فرمائیے، تب نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یہ ارشاد فرمایا۔
(شعب الایمان، ج 3،ص 313،حدیث:3634) جنّت کو رمضان کے لئے کیوں سجایا جاتا ہے؟ علّامہ علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس مبارک
مہینے میں جس کثرت سے بندوں کو بخشا جاتا اور
ان کے درجات کو بلند کیا جاتا ہے وہ نہ رمضان سے پہلے ہوتا ہے اور نہ ہی بعد، اسی
وجہ سے رمضان کی آمد کے انتظار میں سارا ہی سال جنّت کو سجایا جاتا ہے۔(مرقاۃُ المفاتیح، ج 4،ص 458، تحت الحدیث: 1967) جنّت کب، کون
اورکیسے سجاتا ہے؟ عیدُالفطر کا چاند نظر آتے ہی اگلے رمضان کے
لئے جنّت کی آراستگی شروع ہوجاتی ہے اور سال بھر تک فرشتے اسے سجاتے رہتے ہیں،
رہا یہ معاملہ کہ اسے کیسے سجایا جاتا ہے؟ تو ”الترغیب والترہیب“ میں اسی مضمون کی
ایک طویل حدیثِ مبارَکہ میں ہے کہ اسے بَخُور کی دھونی دی جاتی ہے، علّامہ علی قاری
رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اسے سونے سے سجایا جاتا ہے اور حقیقی طور پر اس
کی سجاوٹ کو اللہ پاک ہی بہتر جانتا ہے۔ مفتی احمدیار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جنّت خود سجی سجائی پھر اور بھی زیادہ سجائی
جائے، پھر سجانے والے فرشتے ہوں تو کیسی سجائی جاتی ہوگی! اس کی سجاوٹ ہمارے وَہْم و گمان سے ورا ہے۔ (التر غیب والترہیب، ج 2،ص 60،رقم: 23، مرقاۃ المفاتیح، ج 4،ص 458، تحت الحدیث: 1967، مراٰۃ المناجیح، ج 3،ص 142) جنّت کے دروازے
کھولے جاتے ہیں ایک حدیثِ
پاک میں الفاظ کچھ اس طرح ہیں کہ ”جب
رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو جنّت کے
دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور پورا مہینا ان میں سے ایک دروازہ بھی بند نہیں کیا
جاتا اور جہنّم کے تمام دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور پورا مہینا ان میں سے ایک
دروازہ بھی نہیں کھولا جاتا۔“
(شعب
الایمان،ج 3،ص 304،رقم:3606) جنّت کے دروازے
رَمَضان میں اس لئے کھول دئیے جاتے ہیں تاکہ فرشتوں کو اُمّتِ
محمّدِیَہ
اور رمضان کی عظمت و بزرگی، نیز روزہ داروں کو ملنے والی جزا اور جنّت کی دائمی نعمتوں کا علم ہوجائے۔ (مرقاۃ المفاتیح، ج 4،ص 458،تحت الحدیث:1967) ایک
ضروری وضاحت جنّت کے دروازوں کو رمضان
کے علاوہ دیگر مواقع پر بھی کھولا جاتا ہے البتہ رمضان اور غیرِ رمضان میں ان کے کھلنے
میں فرق یہ ہے کہ رمضان کی آمد پر نہ صرف جنّت کے دروازے کھولے جاتے ہیں بلکہ دوزخ کے دروازے
بند بھی کئے جاتے ہیں۔ نیز رمضان
کے علاوہ دیگر مہینوں میں جنّت اور دوزخ
کے دروازے کبھی کھلتے ہیں اور کبھی بند ہوتے ہیں مگر رمضان میں سارا مہینا دوزخ کے دروازے بند جبکہ جنّت کے کھلے رہتے ہیں۔ (مرقاۃُ المفاتیح، ج 4،ص 458،تحت
الحدیث: 1967، مراٰۃ المناجیح، ج 3،ص 136) مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃاللہ علیہ فرماتے
ہیں: حق یہ ہے کہ ماہِ رمضان میں آسمانوں کے دروازے بھی کھلتے ہیں جن سے اﷲ کی خاص رحمتیں زمین پر اترتی ہیں اور جنّتوں کے دروازے بھی جس کی وجہ سے جنّت والے حور و غِلْمان کو خبر ہوجاتی ہے کہ
دنیا میں رمضان آگیا اور وہ روزہ داروں کے لئے دعاؤں میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ نیز دوزخ کے دروازے بند ہوجاتے
ہیں جس کی وجہ سے اس مہینا میں گنہگاروں بلکہ کافروں کی قبروں پر بھی دوزخ کی گرمی
نہیں پہنچتی۔
(مراٰۃ
المناجیح، ج 3،ص 133ملتقطاً ) ایک خوشگوار ہَوا جب رمضان کا پہلا دن ہوتا ہے تو ایک ہَوا
چلتی ہے جو عرش سے شروع ہوتی ہے جنّت کے درختوں، پھولوں سے معطر ہوکر
حوروں پر پہنچتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ (ہَوا) روزہ دار کے منہ کی وہی بُو ہو جو کہ اللہ پاک کے نزدیک مشک سے بھی
بڑھ کر پاکیزہ ہے۔ یہ ہوا اس لئے چلائی جاتی ہے تاکہ حوریں روزہ داروں کی طرف
مشتاق ہوں۔ (فتح الالٰہ فی شرح المشکاۃ، ج 6،ص 451، تحت الحدیث:1967، مراٰۃ المناجیح،3 ج ،ص 143) ایک
حدیثِ پاک میں الفاظ کچھ اس طرح ہیں کہ جب رَمَضان کی پہلی رات آتی ہے تو عرش کے
نیچے سے ایک ہوا چلتی ہے جسے ” مُثِیرہ“ کہا
جاتا ہے تو جنّت کے پتّے اور دروازوں کے پَٹ
ہلنے لگتے ہیں اور ان سے ایسی دلکش آواز پیدا ہوتی ہے کہ اس جیسی آواز کسی نے نہ
سنی ہوگی۔ (الترغیب والترہیب ، ج 2،ص 60،رقم:23) حورِعین کسے کہتے ہیں؟ (وہ آواز یا ہوا ایسی حوروں پر پہنچتی
ہے جو) گورے رنگ والی، چاندی کے بدن
والی، جن کی آنکھوں کی سفیدی بہت سفید اور سیاہی بہت سیاہ اور
دراز آنکھوں والی، یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان حوروں کی آنکھیں پوری ہی سیاہ ہوں گی کہ جس طرح ہرن کی آنکھ ہوتی ہے،
بنی آدم میں کوئی حور نہیں ہے البتّہ عَرَبی زبان میں کسی عورت کی آنکھوں کی
خوبصورتی کو بیان کرنے کیلئے اسے حُوْرُ الْعُیُوْن یعنی ہرنی کی طرح خوبصورت آنکھوں
والی کہا جاتا ہے۔ (اشعۃ اللمعات، ج 2،ص 81، مختار الصحاح، ج 1،ص 167) بارگاہِ خداوندی میں جنّتی حوروں کی عرض (جب جنّتی حوروں پر ہوا چلتی ہے تو وہ دعا کرتی ہیں کہ) اے ہمارے رب! ہم کو ان نیک بندوں، روزے داروں
اور قیام کرنے والوں کے نکاح میں دے کہ وہ ہمارے خاوند ہوں ہم ان کی بیویاں بنیں۔ خیال رہے کہ نکاح کے لئے نامزدگی تو پہلے ہی ہوچکی ہے کہ
فلاں حور فلاں کی بیوی مگر نکاح جنّت میں
پہنچ کر ہوگا یا نکاح پہلے ہوچکا ہے رخصت یعنی
عطا بعدِ قِیامت ہوگی۔ (مرقاۃ المفاتیح،ج 4،ص 459،مراٰۃ المناجیح،ج3،ص143) ان سے ہماری اور ہم سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں مذکورہ حدیثِ مُبارکہ میں ”تَقَرُّ“ کا لفظ آیا ہے۔ یا تو یہ قُرٌّ سے بنا ہے بمعنی ٹھنڈک اور
یہ دستور ہے کہ محبوب کے دیدار و مُشاہَدہ سے آنکھوں کو ٹھنڈک اور لذّت محسوس
ہوتی ہے جیسا کہ دشمن کو دیکھنے سے آنکھیں سوزش اور گرمی محسوس کرتی ہیں یا یہ
لفظِ قَرٌّ سے نکلا
ہے بمعنی چین و قرار، جب انسان کی نظر محبوب پر پڑتی ہے تو ساکن اور قرار پذیر
ہوجاتی ہےدائیں بائیں نہیں پھرتی۔(اشعۃ اللمعات،ج2،ص81)
اللہ پاک اپنے حبیب صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے عاشقانِ
رسول کو جنّتُ الفِردوس میں بِلاحساب داخلہ نصیب فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ
النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…ماہنامہ فیضان مدینہ،باب لمدینہ کراچی
Comments