ازواج مطہرات کے اُمَّت پر احسانات

نیکی،اچّھا سلوک،بھلائی،مہربانی،عطا،عنایت اورنوازش جیسی تمام خوبیوں کو کسی ایک لفظ سے تعبیر کرنا ہو تو اُسے احسان کہہ سکتے ہیں۔حضورِاکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اپنے اُمّتیوں پر بے شمار احسانات ہیں،اسی طرح حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مقدّس و پاکیزہ بیویوں کےبھی اُمّت پر احسانات ہیں اور کیوں نہ ہوں کہ وہ بحکمِ قراٰنِ مجید مؤمنوں کی مائیں ہیں اور ماں بچّوں پر احسان کا کوئی موقع نہیں چھوڑتی، ویسے تو ہراُمّ المؤمنین کا ہم پر کوئی نہ کوئی احسان ضرور ہے اور ان احسانات کی کئی صورتیں ہیں مگر یہاں بعض اُمّہاتُ المؤمنین کے چند احسانات ذکر کئے جاتے ہیں۔

٭سب سے پہلے اگر ہم اُمّ المؤمنین حضرت سیِّدتُنا خدیجۃُ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی بات کریں تو آپ نے ابتدائے اسلام میں تبلیغِ دین کی خاطر اپنا مال وقف کردیا، دل، زبان، جان اور مال کے ساتھ حضور نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی معاوَنت اورحوصلہ افزائی کی اوربہت زیادہ تعاون کیا۔آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان باتوں کا بارباراِقرار و تذکرہ فرمایا اور اُن کی تحسین و تعریف فرمائی۔آپ کے یہ احسانات ساری اُمّت پر قرض رہیں گے۔

٭یوں ہی اگر ہم اُمّ المؤمنین حضرت سیّدتُنا عائشہ صدّیقہ طیّبہ طاہرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی سیرتِ مقدّسہ کو دیکھیں تو اُمّتِ مسلمہ پر آپ کے علمی، مذہبی، معاشرتی، اجتماعی اور اصلاحی بے شمار احسانات نظر آتے ہیں۔ آپ کا سب سے بڑا احسان اُمّت کی راہنمائی کے لئے شرعی احکام وغیرہ پر مشتمل 2210 احادیثِ مبارَکہ کا بڑا ذخیرہ روایت کرنا اور کثیر صحابۂ کرام اور تابعینِ عظّام رضی اللہُ عنہم کی شرعی راہنمائی فرمانا ہے۔چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم صحابہ کو کسی بات میں مشکل پیش آتی تو اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی بارگاہ میں سوال کرتے اور آپ سے ہی اس بات کا علم پاتے۔ (ترمذی،ج5، ص471، حدیث: 3909) اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ خود حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اِس اُمّت کی تمام عورتوں بشمول ازواجِ مطہّرات کے علم کو اگر جمع کرلیا جائے تو عائشہ کا علم اِن سب کے علم سے زیادہ ہوگا۔(مجمع الزوائد،ج9، ص389،حدیث:15318)

عورتوں پر بھی آپ کے خاص اور زبردست احسانات ہیں، دورِ نَبَوی میں زیادہ تر آپ ہی عورتوں کی معروضات اور گزارشات بارگاہِ رسالت تک پہنچاتیں، اُن کے ذاتی مسائل کے حل پر بھی بھرپور توجّہ دیتیں۔ اسلامی بہنوں پر آپ کا ایک خاصُّ الخاص احسان یہ ہے کہ آپ نے اپنی حیات و خدمات اور سیرت و کردار سے بتادیا کہ ایک عورت بھی پردے میں رہ کر دِین کی عظیم خدمت کرسکتی ہے اور یہ بھی آپ کا احسان ہے کہ عورتوں کے مخصوص شرعی مسائل کا بڑا حصّہ آپ ہی نے اُمّت تک پہنچایا ہے۔ ایک خاص احسان یہ ہے کہ آپ کی برکت سے ساری اُمّت کو تیَمّم کا حکم ملا اور پانی پر قدرت نہ ہونے کی صورت میں پاک مٹّی سے پاکی حاصل کرنے کی اجازت مل گئی۔ سبحٰن اللہ

٭اُمّت پر احسانات فرمانے والی ہماری ماؤں میں سے ایک اُمُّ المؤمنین حضرت سیّدتُنا اُمِّ سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا بھی ہیں۔ آپ شرعی احکام و قوانین کی ماہر فقہا صحابیات میں شمار ہوتی ہیں۔ (سیر اعلام النبلاء،ج2، ص203) اور بقولِ امام الحَرَمین امام ابو المَعالی عبدالملك بن عبد الله جُوَينی: حضرت اُمِّ سلمہ کی رائے ہمیشہ درست ثابت ہوتی تھی۔

(فتح الباری،ج6، ص294،تحت الحدیث:2733)

وجہ یہی ہے کہ آپ نے بارگاہِ رسالت میں بکثرت سوالات پوچھے اور پھر لوگوں نے آپ سے شرعی راہنمائی حاصل کی، بالخصوص”صلحِ حُدَیبیہ“ کے موقع پر آپ کی معامَلہ فہمی، حکمتِ عَمَلی اور بہترین مشورے نے اصلاح کا بڑا کام کیا کہ اس وقت صحابۂ کرام عمرہ کی ادائیگی سے روکے جانے پر رنج و غم میں تھے اور کوئی بھی قربانی کرکے اپنا احرام کھولنے کے لئے ذہنی طور پر تیّار نہیں تھا تو آپ نے بارگاہِ رسالت میں یہ رائے دی کہ یارسولَ اﷲ! آپ کسی سے کچھ بھی نہ فرمائیں اور خود اپنی قربانی ذبح کرکے اپنا احرام کھول دیں چنانچہ حضورِ انور صلَّی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایسا ہی کیا یہ دیکھ کر سب صحابۂ کرام نے بھی اپنی اپنی قربانیاں کرکے احرام کھول دیا۔

٭ اُمُّ المؤمنین حضرت سیّدتُنا زینب بنتِ جحش رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاکو بارگاہِ نَبَوی میں خاص مقام حاصل تھا،حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے آپ کا نکاح خود ربِّ کریم نے فرمایا اور گواہ حضرت جبریل علیہ السَّلام تھے۔ آپ کے احسانات بالخصوص یتیموں اور بیواؤں پر بہت تھے، آپ نے خواتین کو سکھایا کہ صدقہ و خیرات کی کثرت کریں اور کمزوروں کا سہارا بنیں۔

٭اُمُّ المؤمنین حضرت سیّدتُنا حفصہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے اپنے کردار و عمل سے حق گوئی کے ساتھ ساتھ انفرادی عبادات جیسے غریبوں و محتاجوں کی مدد، شب بیداری و روزہ داری، نیز تلاوتِ قراٰن کی ترغیب و تعلیم دی ہے اورحضورِ اکرم صلَّیاللہُعلیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تقریبًا 60 احادیثِ مُبارَکہ اُمّت تک پہنچا کر اس پر احسان فرمایا۔

(مدارج النبوۃ،ج2، ص474)

٭76احادیثِ کریمہ روایت کرنے والی اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُنا میمونہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا بہت زیادہ خوفِ خدا رکھنے والی اور انتہائی صلہ رَحمی کرنے والی خاتون تھیں۔ لوگوں کو شریعت کی پاسداری سکھانے والی ہستی ہیں اور اُمّتِ مسلمہ کو متعدّد مسائل کا حل آپ کے ذریعے سے ملا، خاص کرحالتِ احرام میں نکاح کے جائز ہونے کا مسئلہ آپ کی برکت سے ظاہر ہوا۔

٭اُمُّ المؤمنین حضرت سیّدتُنا جُوَیریہ رضی اللہُ عنھا کا سب سے پہلا احسان اپنے قبیلہ والوں پر تھا کہ آپ کی بدولت تقریباً 700افراد نے غلامی سے آزادی پائی، حضرت سیِّدَتُنا عائشہ صدّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں: حضرت جُوَیریہ سے بڑھ کر اپنی قوم پر خیر و برکت لانے والی کوئی اور عورت ہم نے نہیں دیکھی۔

(ابوداؤد،ج4، ص30،حدیث:3931)

حضرتعبداللہ بن عباس، حضرتعبداللہ بن عُمر اور حضرت جابر بن عبداللہ جیسے اکابر صحابہ رضی اللہُعنھم نے آپ سے روایات کیں ہیں جن میں اُمّت کی راہنمائی کا بڑا سامان موجود ہے۔

ربِِّ کریم ہم تمام اسلامی بھائیوں کو اور خاص کر ہماری اسلامی بہنوں کو ازواجِ مطہّرات کی سیرت پڑھنے، سننے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، مولائے کریم اُنہیں اِن احسانات پر جزائے خیر عطا فرمائے۔ تمام اُمّہاتُ المؤمنین پر اللہ پاک کی رحمت ہو اور اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

امہاتُ المؤمنین کی مبارک سیرت کے بارے میں مزید جاننے کے لئے مکتبۃُ المدینہ کی کتاب ”فیضانِ امہاتُ المؤمنین“ پڑھئے۔ یہ کتاب اس لنک سے فری ڈاؤنلوڈ بھی کی جاسکتی ہے۔

https://www.dawateislami.net/bookslibrary/ur/faizan-e-ummahatul-momineen

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭۔۔۔شعبہ تراجم، المدینۃالعلمیہ، باب المدینہ کراچی


Share

ازواج مطہرات کے اُمَّت پر احسانات

خاتونِ جنّت، شہزادیِ کونین حضرت سیّدَتُنا فاطمہ زَہرا رضی اللہ عنہا کی مبارک عادات اور انداز میں رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے بہت حد تک مشابہت پائی جاتی تھی چنانچہ اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:میں نے فاطمہ بنتِ رسولُ اللہ سے بڑھ کر کسی کو عادات و اَطوار، سیرت و کِردار اور نِشَسْت و برخاست میں رسولُ اللہسے مشابہت رکھنے والا نہیں دیکھا۔(ترمذی، ج5، ص466، حدیث: 3898 ملخصاً)

اسی طرح جب آپ رضی اللہ عنہا اپنے والدِ مکرم رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوتیں تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک خاص انداز سے اِستقبال فرماتے اور جب پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنی شہزادی کے ہاں تشریف لے جاتے تو وہ بھی اسی انداز میں استقبال فرماتیں اور سرکارِ دوجہاں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آمد پر تعظیم کرتے ہوئے کھڑی ہوجاتیں، مبارک ہاتھوں کو بوسہ دیتیں اور اپنی جگہ پر بٹھاتیں۔(ترمذی،ج5، ص466، حدیث:3898ملخصاً)

رسولُ اللہ کی جیتی جاگتی تصویر کو دیکھا!

کیا نظارہ جن آنکھوں نے تفسیرِ نُبُوَّت کا

بتول و فاطِمہ زَہرا لقَب اس واسطے پایا

کہ دنیا میں رہیں اور دیں پتہ جنّت کی نِگْہَت کا(دیوانِ سالک،ص33)

خاتونِ جنّت رضی اللہ عنہا کا وصال نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وصالِ ظاہری کے تقریباً پانچ یا چھ ماہ بعد 3رمضانُ المبارک 11ہجری میں ہوا۔(طبقات الکبریٰ،ج8، ص23) اور نمازِجنازہ حضرت سیّدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے پڑھائی۔(مراٰۃ المناجیح،ج8، ص456، طبقات الکبریٰ،ج8، ص24، تاریخ مدینہ دمشق،ج7، ص458، البدایۃ والنہایۃ،ج1، ص157، حلیۃالاولیاء،ج4، ص100، مسند الحارث،ج1، ص371، حدیث: 272)

خاتونِ جنّت حضرت سیّدَتُنا فاطمۃ الزھراء رضی اللہ عنہا کی سیرت کے مختلف پہلوؤں کو جاننے کے لئے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ کتاب ”شانِ خاتونِ جنّت“ کا مطالَعہ کیجئے۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭۔۔۔ماہنامہ فیضانِ مدینہ ،باب المدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code