٭امام زرقانی رحمۃ اللہ علیہ (وفات:1122ھ) فرماتے ہیں: ہمارے نبیِّ مُکرّم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم غیب جانتے ہیں(مزید فرماتے ہیں: قراٰنِ پاک میں) جہاں (علمِ غیب کی) نفی ہے وہ علمِ ذاتی کی ہے جو بے واسطہ ہوتا ہے لیکن حضرت سیّدِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا باعلامِ الٰہی مطلع ہونا (یعنی اللہ پاک کے بتانے سے غیب جاننا اس آیتِ مُبارکہ)(اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ )(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) سےثابت ہے۔(زرقانی علی الموا ھب،ج10،ص 112) ٭مُفسّرِِ قراٰن حضرت علّامہ سلىمان جمل رحمۃ اللہ علیہ (وفات: 1204ھ) فرماتے ہیں: ہمارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا علمِ عظیم انسانوں، جنّوں اور فرشتوں سب کے عُلوم سے وسیع ہے کیونکہ اللہ نے آپ کو تمام عالَم پر مطلع فرمایا ہے علومِ اَوَّلین و آخِرِین، ومَا کَانَ ومَا یَکُوْن (جو ہوچکا اور جو ہوگا ان تمام باتوں کا علم اور اگلے پچھلے لوگوں کے تمام عُلوم) مَرْحَمت فرمائے اور آپ کا تو عُلومِ قراٰن کا ہی عالِم ہونا بہت کافی ہے کہ حق سبحانہ و تعالٰی نے ارشاد فرمایا ہے کہ ہم نے کتاب میں کوئی چیز نہ چھوڑی۔(فتوحاتِ احمدیہ،ص53) ٭صاحبِ تفسیرِ روحُ البیان علّامہ اسماعیل حقی رحمۃ اللہ علیہ (وفات:1127ھ) فرماتے ہیں: معنى شهادة الرسول عليهم اطلاعه على رتبة كل متدين بدينه وحقيقته التي هو عليها من دينه وحجابه الذي هو به محجوب عن كمال دينه فهو يعرف ذنوبهم وحقيقة ايمانهم واعمالهم وحسناتهم وسيآتهم واخلاصهم ونفاقهم وغير ذلك بنور الحق یعنی رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا مسلمانوں پر گواہی دینے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ہر دین دار شخص کے دِین میں رتبے کو اور دِین میں اس کی ترقی میں حائل رکاوٹ کو جانتے ہیں۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مسلمانوں کے گناہوں، ان کے ایمان کی حقیقت، اچّھے بُرے اعمال، اخلاص و نفاق اور دیگر باتوں کو حق کے نور کے ذریعے جانتے ہیں۔(روح البیان،ج1،ص 248ملخصاً) ٭حُجَّۃُ الاسلام حضرت سیّدُنا امام محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ (وفات:505ھ) فرماتے ہیں:ان له صفة بها يدرك ماسيكون فى الغيب اما فى اليقظة او فى المنام اذ بها يطالع اللوح المحفوظ فيرى ما فيه من الغيب یعنی انبیائے کِرام علیہمُ السَّلام کو اللہ کی طرف سے ایک ایسی صِفَت عطا ہوتی ہے جس کے ذریعے خواب یا بیداری کے عالَم میں یہ عُلُومِ غیبیہ جان لیتے ہیں، اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اس خداداد صِفَت کی بدولت یہ حضرات لوحِ محفوظ کا مُطالعہ فرماتے ہیں اوراس میں موجود غیبی عُلوم ان پر مُنکَشف ہوجاتے ہیں۔(احیاء العلوم، ج 4،ص 240) ٭علّامہ شیخ احمد صاوی مالکی رحمۃ اللہ علیہ (وفات: 1241ھ) فرماتے ہیں:ان رسول اللہ لم ينتقل من الدنيا حتى اعلمه اللہ بجميع المغيبات التي تحصل في الدنيا والآخرة، فهو يعلمها كما هي عين يقين، لما ورد: ”رفعت لي الدنيا فانا انظر فيها كما انظر الى كفي هذه“، و ورد انه اطلع على الجنة وما فيها، والنار وما فيها، وغير ذلك مما تواترت به الاخبار، ولكن امر بكتمان البعض یعنی بیشک رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس وقت تک دنیا سے تشریف نہ لے گئے جب تک کہ اللہ پاک نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دنیا و آخرت کے تمام غیبوں پر مطلع نہ فرمادیا، نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام غیب ایسے جانتے تھے جیسے آنکھوں دیکھی ہوں جیسا کہ حدیثِ پاک میں ہے: میرے لئے دنیا کو اٹھا لیا گیا تو میں نے اس میں ایسے دیکھا جیسے اپنی اِس ہتھیلی کو دیکھ رہا ہوں۔ نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو جنّت و دوزخ اور اُن میں موجود چیزوں پر مُطّلع فرمایا گیا، اس کے علاوہ دیگر اُمور کے بارے میں مُتواتر روایات آئی ہیں مگر ان میں سے بعض چیزوں کے چھپانے کا حکم دیا گیا۔(تفسیرِصاوی، ج 1،ص 733)٭غوثِ زماں حضرت سیّدُنا عبد العزیز دَبَّاغ حسنی رحمۃ اللہ علیہ (وفات:1132ھ) فرماتے ہیں: ہو صلَّی اللّٰہ علیہ و سلَّم لایخفی علیہ شیء من الخمس المذکورۃ فی الاٰیۃ الشریفۃ وکیف یخفی علیہ ذالک والاقطاب السبعۃ من امتہ الشریفۃ یعلمونہا وہم دون الغوث فکیف بالغوث فکیف بسید الاولین والاٰخرین الذی ہو سبب کل شیء ومنہ کل شئ یعنی آیۂ کریمہ میں مذکور پانچ چیزوں (یعنی قِیامت کا علم، بارش کا وقت، حمل میں کیا ہے اور کوئی آدمی کل کو کیا کرے گا اور کہاں مَرے گا) میں سے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر کچھ بھی پوشیدہ نہیں اور یہ چیزیں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر کیسے مخفی رہ سکتی ہیں؟ حالانکہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شرف والی اُمّت کے سات قطب وہ ہیں جو اِن چیزوں کو جانتے ہیں جبکہ وہ غوث بھی نہیں پھر غوث کا کیا عالَم ہوگا؟ پھر اولین و آخرین کے سردار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا کیا کہنا جو ہر چیز کا وسیلہ ہیں اور ہر چیز انہی کے وسیلے سے ہے۔(ابریز،ج 2،ص 310)ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے علمِ غیب کے مُتعلّق تفصیلی معلومات کے لئے ان کُتُب و رَسائل کا مُطالعہ بےحد مفید ہے: (1)خَالِصُ الْاِعْتِقَاد (علمِ غیب سے متعلق 120 دلائل پر مشتمل ایک عظیم کتاب) (2)اِنْبَاءُ الْمُصْطَفٰی بِحَالِ سِرٍّ وَاَخْفٰی (حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو مَا کَانَ وَ مَا یَکُوْنُ کا علم دیئے جانے کا ثبوت) (3)اِزَاحَۃُ الْعَیْبِ بِسَیْفِ الْغَیْبِ (علمِ غیب کے مسئلے سے مُتعلّق دلائل اور بدمذہبوں کا رد) (از:اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ، مذکورہ تینوں رسائل پڑھنے کیلئے فتاویٰ رضویہ جلد 29 ملاحظہ فرمائیے) (4)اَلکَلِمَۃُ العُلیا (از:صدرُ الا فاضل مولانا نعیمُ الدّین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ) اور (5)جاءَ الحق (از:حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یا ر خان رحمۃ اللہ علیہ)اللہ کریم ہمیں رسولِ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سچی محبّت عطا فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
اعتکاف
کی خوبیاں
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
اعتکاف کی خوبیاں بالکل ہی ظاہِرہیں کیونکہ
اس میں بندہ اللہ پاک کی رِضا حاصل کرنے کے لئے مکمل
طور پر اپنے آپ کو اللہ کریم کی
عبادت میں مصروف کر دیتا ہے اور اللہ پاک کے قُرب کی راہ میں حائل تمام
مصروفیاتِ دنیا سے کنارہ کش ہوجاتا ہے۔ ٭معتکف
ان (فِرشتوں) سے مُشابَہَت رکھتاہے جو اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں
کرتے اورجوکچھ انہیں حُکم ملتاہے اسے بجا لاتے ہیں، اور ان (فِرشتوں) کے ساتھ
مُشابَہَت
رکھتاہے جوشب و روز اللہ کی پاکی بیان کرتے رَہتے ہیں اوراس سے اُکتاتے نہیں۔ (فتاویٰ عالمگیری،ج1،ص 212ملتقطاً) اَلْحَمْدُ
لِلّٰہ دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول میں پورے ماہِ رمضان اور آخری عشرے(10دن) کا
اجتماعی اعتکا ف ہوتا ہے جس میں انفرادی عبادات کے ساتھ ساتھ فرض علوم اور اہم دِینی معلومات کا اہتمام
ہوتاہے۔ دعوتِ اسلامی کے تحت اعتکاف کرنے کے لئے آج ہی اپنے قریبی مَدَنی مرکز
فیضانِ مدینہ میں یا قریبی ذمہ دارانِ دعوتِ اسلامی سے رابطہ کیجئے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…رکن مجلس المدینتہ اعلمیہ با ب لمدینہ کراچی
Comments