ننّھا حَسن اپنے والد داؤد صاحب کے ساتھ مغرب کی نَماز
پڑھنے کے بعد گھر پہنچا اور کھانا کھانے میں مصروف ہوگیا۔ اچانک مسجدسے صَدا بُلند
ہوئی:”تمام عاشقانِ رسول کو مبارک ہو کہ رَمَضانُ المبارَک کا چاند نظر آگیا ہے“
مرحبا صد مرحبا! پھر آمدِ رمضان ہے
کھِل اٹھے مُرجھائے دل تازہ ہوا ایمان ہے
حسن کھانا چھوڑ کر اپنے ابوجان کی جانب بھاگا جو کہ دوسرے
کمرے میں مدنی چینل دیکھ رہے تھے۔حسن کمرے میں داخل ہوتے ہی بولا:ابّوجان! مبارَک ہو! رمضان شريف کا چاند نظر آگیا ہے، اب تو بہت مزہ آئے گا۔ داؤدصاحب
اپنے لختِ جگر کی باتیں سُن کر مُسکرا دیئے اور اس کے سَر
پرپیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے:خیر مبارَک
بیٹا ! آپ کوبھی اللہ پاک کے مہمان کی آمد مبارک ہو۔حسن حیرت سے بولا:اللہ پاک کا مہمان؟ میں سمجھا نہیں ابّو جان! داؤدصاحب بولے: جی حسن بیٹا! رَمَضانُ المبارَک ہمارے لئے اللہ پاک کی طرف سے آیا ہوا بابرکت مہمان ہے۔ یہ سنتے ہی حسن بولا:ارے واہ! لیکن ابّو یہ
بابرکت مہینا کیسے ہے؟ داؤد صاحب نے اس کی
برکتیں بتاتے ہوئے کہا کہ اس
لئے کہ اس مبارک مہینے میں لوگ کثرت سے نیک کاموں کی طرف مائل ہوجاتے
ہیں، روزہ رکھتے ہیں، قراٰنِ پاک کی کثرت سے تلاوت کرتے ہیں، رات کو تراویح کی نماز پڑھتے
ہیں اور مسجد تو نَمازیوں سے مکمل بھرجاتی ہے۔ یہ تمام عبادات ہم اس لئے کرتے ہیں
تاکہ اللہ پاک کا یہ مہمان ہم سے راضی ہوجائے اور جب یہ
بابرکت مہینا ہم سے رُخصت ہوتو یہ ہم سے ناراض نہ ہو اور یہی وہ مہینا ہے
جس میں شیطان قید ہوجاتا ہے۔(مسند
احمد،ج3،ص121،حدیث:7785)حسن بولا: جی ابوجان یہ بہت
اچھی بات ہے میں بھی نیت کرتاہوں کہ اس مہینے کو راضی کروں گا۔ شاباش بیٹا!لیکن آپ
کس طرح راضی کریں گے اس مہمان کو؟ داؤدصاحب نے اپنے بیٹے سے سوال کیا۔ حسن بولا:میں
پانچ وقت کی نَماز پڑھوں گا اور قراٰنِ پاک کی تلاوت بھی کروں گا۔بیٹا!یہ تو آپ
پہلے سے ہی کرتے ہیں، داؤد صاحب نے مُسکراتے ہوئے کہا۔ ابّوجان پھر آپ ہی بتائیں
کہ میں کس طرح اس مہان کو راضی کروں؟ حسن
نے سوال کیا۔ بیٹا! آپ کی عمر کتنی ہوچکی ہے؟ داؤد صاحب نے پوچھا؟ ابّوجان! 10سال۔ حسن نے جلدی سے جواب دیا۔ داؤد صاحب بولے: جی بیٹا آپ کی عمر 10سال ہوچکی ہے آپ پر روزہ فرض تو نہیں مگر پھر بھی آپ کو روزہ رکھنے کی کوشش
کرنی چاہئے۔ تاکہ آپ بھی اس مہینے کی برکتیں حاصل کرسکیں اور جب روزہ فرض ہوجائے
تو روزہ رکھ سکیں۔ حسن بولا: جی ابّوجان میں بھی روزہ رکھوں گا۔اِنْ
شَآءَ اللہ لیکن ابّوجان! روزہ رکھنے کا
ہمیں فائدہ کیا ہوتا؟ داؤدصاحب بولے: بہت اچّھا سُوال کیا آپ نے۔ حسن بیٹا! روزہ
رکھنے کا سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ اللہ پاک ہم سے راضی ہوگا اور اس کا مہمان رَمَضانُ المبارَک کل قِیامت کے دن اللہ پاک کی بارگاہ میں ہماری سِفارش کرے گا۔(شعب الایمان،ج 2،ص346، حدیث:1994) روزہ میں جب ہمیں بھوک اور پیاس لگتی ہے تو اس
سے ہمیں ان لوگوں کی بھوک اور پیاس کا بھی احساس ہوتا ہے کہ جو غریب ہونے کی وجہ
سے بھوک اور پیاس کو بَرداشت کرتے ہیں، لہٰذا روزہ کی برکت سے ہمیں ایسے لوگوں کی
مدد کرنے کا بھی جذبہ ملتا ہے، اسی طرح روزہ سے ہمیں صبر اور برداشت کا بھی جذبہ
ملتا ہے۔ واہ! ابّوجان روزہ رکھنے کے تو بہت ہی زیادہ فائدے ہیں۔ میں اِنْ شَآءَ
اللہ ضرور روزے رکھوں گا۔ حسن نے اپنی پیاری سی نیّت کا اظہار
کرتے ہوئے کہا۔ اور داؤد صاحب اپنے لختِ جگر کے اس جذبہ کو دیکھ کر اللہ پاک شکر ادا کرنے لگے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…مدرس جامعتہ المدینہ،مدینہ الاولیاء ملتان
Comments