قضا روزہ کی نیت کس وقت معتبر ہے؟ مع دیگر سوالات

دارُالافتاء اہلِ سنّت

*محقق اہل سنّت، دارُالافتاء اہلِ سنّت نورالعرفان، کھارادر کراچی

ماہنامہ فیضان مدینہ مئی 2024ء

(1)بلڈر کا مزید رقم طلب کرناکیسا ؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں نے ایک زیرِ تعمیر عمارت میں دو سال پہلے بلڈر سے 63 لاکھ روپے کا ایک فلیٹ بک کروایا تھا اور کچھ رقم ایڈوانس کے طور پر دے چکا تھا، اب سیمنٹ اور سریے کے ریٹ کافی زیادہ بڑھ چکے ہیں جس کی وجہ سے بلڈر کی جانب سے مزید رقم کا مطالبہ کیا جارہا ہے، کیا بلڈر کا سودا ہوجانے کے بعد مزید رقم کا مطالبہ کرنا درست ہے؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں بلڈر کا سوداطے ہوجانے کے بعد مزید رقم طلب کرنا جائز نہیں۔

مسئلہ کی تفصیل یہ ہے کہ زیرِ تعمیر بلڈنگ میں فلیٹ بک کروانا ”بیع استصناع“ ہے، اور مفتیٰ بہ قول کے مطابق بیع استصناع کرنے سے عقد لازم ہوجاتا ہے اور خریدار اور بیچنے والے میں کوئی بھی فریق اپنے معاہدے سے نہیں پھر سکتا لہٰذا مذکورہ صورت میں جب خرید و فروخت کے وقت ایک قیمت طے کرلی گئی تو اب اسی طے شدہ قیمت کے بدلے فلیٹ تیار کرکے دینا بلڈر کی ذمہ داری ہے، اسے خود سے ریٹ بڑھانے کا شرعاً اختیار نہیں۔ تاہم اگر دونوں فریق باہمی رضا مندی سے پُرانے عقد کو ختم کرکے نیا سودا کریں تو آپس کی رضا مندی سے نئی قیمت طے کرنے کی گنجائش ہے۔ لیکن اس کے لئے جبر نہیں ہو سکتاجیسا کہ عام طور پر بلڈرز حضرات یکطرفہ جبر کرتے ہیں یا اپنی مرضی سے غیر طے شدہ چارجز بڑھا دیتے ہیں یہ جائز نہیں ہے۔(الہدایہ مع البنایۃ، 7/21-تبيين الحقائق، 4/124- فتاویٰ رضویہ، 17/87-بہار شریعت،2/623)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(2)قضا روزہ کی نیت کس وقت معتبر ہے ؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید کی رات میں یہ نیت تھی کہ اگر میری سحری میں آنکھ کھلی تو میں نے قضا روزہ رکھنا ہے، لیکن سحری کے وقت زید قضا روزے کی نیت کرنا ہی بھول گیا اور مطلق روزے کی نیت سے اس نے روزہ رکھا، پھر صبح اسے یاد آیا کہ میں نے تو آج قضا روزہ رکھنا تھا۔ اب معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا اس صورت میں زید دن میں اس قضا روزے کی نیت کرسکتا ہے؟ کیا دن میں نیت کرلینے سے اس کا وہ قضا روزہ ادا ہوجائے گا؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں زید کا وہ قضا روزہ ہی ادا ہوگا۔

مسئلہ کی تفصیل یہ ہے کہ قضا روزے کی نیت رات میں یا عین صبحِ صادق کے وقت کرنا ضروری ہے اس کے بعد قضا روزے کی نیت معتبر نہیں، اب جبکہ صورتِ مسئولہ میں زید نے رات ہی میں قضا روزے کی نیت کرلی تھی پھر اگرچہ کہ سحری اس نے مطلق روزے کی نیت سے کی لیکن کہیں بھی اس قضا روزے کی نیت سے رجوع کرنا نہیں پایا گیا، لہٰذا قضا روزے کی نیت رات ہی میں کرلینے سے اس کا وہ قضا روزہ شمار ہوگا۔ (رد المحتار مع الدر المختار،3/393-فتاویٰ عالمگیری،1/196-بحر الرائق، 3/458ملتقطاً-فتاویٰ فیض الرسول، 1/512)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(3) حج قران میں قربانی کی طاقت نہ تھی

اور عرفہ سے پہلے تین روزے نہ رکھے تو کیا حکم ہے ؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ حجِ قران یا حجِ تمتع کرنے والاقربانی کرنے کی طاقت نہیں رکھتا، تو اس پر دس روزے رکھنا لازم ہیں۔تین روزے عرفہ کے دن سے پہلے اور بقیہ سات روزے حج کے دنوں کے بعد رکھے گا۔پوچھنا یہ ہےاگر کسی نےعرفہ کے دن سے پہلے تین روزے نہیں رکھےا ور قربانی کا دن آگیا، تو اب ایسے شخص کے لئے کیا حکمِ شرعی ہوگا؟روزے رکھ سکتا ہے یا قربانی ہی کرے گا؟شرعی رہنمائی فرما دیں۔

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں ایسے شخص پر اب قربانی کرنا ہی لازم ہوگا، روزہ رکھنے سے، قربانی کا واجب ادا نہیں ہوگا۔

”27 واجبات حج اور تفصیلی احکام“ میں ہے:”اگرنویں ذو الحجہ تک پہلے کے تین روزے نہیں رکھے یہاں تک کہ یومِ نحر آگیا، تو اب روزے رکھنا کافی نہیں، بلکہ قربانی کرنا ہی لازم ہے۔قربانی نہ کی تو نہ صرف قربانی ذمہ پر باقی رہے گی، بلکہ تاخیرکی، تو اس کی بنا پر دم دینابھی لازم ہوگا۔“(27 واجبات حج اور تفصیلی احکام،ص111-فتاویٰ ہندیہ،1/239)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(4)صاحبِ ترتیب نے قضا نہ پڑھی اور اگلی نماز

 شروع کردی تو کیا کرے؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ صاحبِ ترتیب شخص کی فجر قضا ہو گئی، صاحبِ ترتیب شخص، ظہر کی نماز الگ سے پڑھ رہا تھا، دورانِ نماز ابھی ایک رکعت ہی پڑھی تھی کہ یاد آیا کہ فجر کی قضا نماز ابھی تک باقی ہے۔ پوچھنا یہ ہے صاحبِ ترتیب شخص جو ظہر کی نماز پڑھ رہا ہے، ظہر کی نماز پوری کرے یا نماز توڑ دے؟ ظہر کی نماز کا وقت ختم ہونے میں کافی وقت باقی ہے۔ شرعی رہنمائی فرما دیں۔

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں ظہر کی نماز فاسد ہوگئی، پہلے فجر کی قضا نماز پڑھے اور بعد میں دوبارہ نئے سرے سے ظہر کی نماز ادا کرے۔

اس مسئلہ کی تفصیل کچھ یوں کہ صاحبِ ترتیب شخص پر لازم ہوتا ہے کہ قضا نماز یاد ہونے کی صورت میں پہلے قضا نماز پڑھے،بعد میں وقتی نماز پڑھے اور وقتی نماز ادا کرنے کے دوران یہ یاد آیا کہ قضا نماز باقی ہے اور وقتی نماز کے وقت میں بھی گنجائش ہو اس طرح کہ قضا نماز پڑھنے کے بعد، وقتی نماز ادا ہونے کا وقت بچا ہو، جیسا کہ سوال میں بیان کردہ صورت میں ہے، تو اس صورت میں جو وقتی نماز ادا کر رہا ہے، وہ فاسد ہو جائے گی۔ لہٰذا صاحبِ ترتیب شخص پر لازم ہوگا کہ پہلے فجر کی قضا نماز ادا کرےا ور پھر ظہر کی نماز ادا کرے۔(فتاویٰ ہندیہ،1/122-ملخصاً از فتاویٰ امجدیہ،حصہ1، 1/271، 272)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* مفتی ابو محمد علی اصغر عطّاری مدنی


Share