9،10 محرم الحرام کو پانی کی سبیل لگانا کیسا؟ مع دیگر سوالات

دارُالافتاء اہلِسنّت

*مفتی محمد قاسم عطاری

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جولائی 2024ء

(1)آن لائن شاپنگ کرتے وقت کارڈ پیمنٹ کرنا کیسا؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ مختلف کمپنیز سے آن لائن سامان منگوانے کے لیے سامان آرڈر کرتے وقت ہی کارڈ پیمنٹ کی جاتی ہے یعنی سامان کی پیمنٹ پہلے ہو جاتی ہے اور سامان بعد میں دوسرے تیسرے یا چوتھے دن کسٹمر تک پہنچتا ہے کیا سامان کسٹمر تک پہنچنے سے پہلے ہی کارڈ پیمنٹ کرنا جائز ہے؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں کارڈ کے ذریعے پیمنٹ کی ادائیگی پہلے کردینا جائز ہے،اس میں کوئی حرج نہیں،کیونکہ جب مبیع و ثمن کی مقدار وغیرہ کی تعیین ہوجائے (یعنی جو چیز بیچی جارہی ہے اس کی مکمل وضاحت کردی گئی ہے کہ وہ کس طرح کی ہوگی اور جس قیمت پر خریدی گئی وہ بھی مقرر ہے)اور دیگر بیع کی تمام شرائط پائی جائیں تو اس کے بعد محض مبیع پر قبضہ نہ کرنے کی وجہ سے بیع فاسد نہیں قرار دی جائے گی،کیونکہ بیع کے صحیح ہونے کیلئے مبیع پر قبضہ کرلینا شرط نہیں،بلکہ بیع تو فقط ایجاب و قبول یا اس کے قائم مقام تعاطی وغیرہ کے ذریعے منعقد ہوجاتی ہے، البتہ اس طرح کی منقولی(Moveable) چیز پر قبضہ کیے بغیر آگے بیچنا جائز نہیں ہے کیونکہ آگے بیچنے کے لیے اس چیز پر قبضہ ضروری ہے۔

یاد رہے کہ یہ بیع سلم نہیں، بیع مطلق ہے،کیونکہ بیع مطلق میں مبیع کا موجود ہونا ضروری ہے،اور یہاں ایسا ہی ہوتا ہے کہ مبیع فی الحال موجود ہوتی ہے ہاں یہ ہے کہ ادائیگی پہلے کردی گئی ہے اور مبیع پر فی الحال قبضہ نہیں اور یہ بیع مطلق کے منافی نہیں ہے۔اسی طرح بیع مطلق میں پورے ثمن پر فی الحال قبضہ کرلینا ضروری نہیں ہے، جبکہ بیع سلم کی صورتحال اس سے بہت مختلف ہے کیونکہ بیع سلم کی کچھ مخصوص شرائط ہیں جن کے بغیر وہ منعقد ہی نہیں ہوتی،جس کی کافی تفصیل بہارِ شریعت حصہ 11 بیع سلم کے بیان میں ہے، ان میں سے ایک شرط مکمل ثمن فی الحال مسلم الیہ کو دے دینا اور مسلم الیہ کا اس پر قبضہ کرلینا ہے اس کے بغیر بیع سلم فاسد ہوجاتی ہے، اسی طرح بیع سلم میں فی الحال مبیع موجود نہیں ہوتی۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(2)9، 10محرم الحرام کو پانی کی سبیل لگانا کیسا؟

سوال:کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارے گاؤں میں ایک شخص نے کہا کہ 9، 10محرم الحرام کو پانی کی سبیل لگانا جائز نہیں، آپ سے عرض ہے کہ ہمیں اس بارے میں رہنمائی فرمائیں کہ کیا 9، 10محرم الحرام کو پانی کی سبیل لگانا جائز ہےیا نہیں؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

نو یا دس محرم الحرام کو خالص اللہ پاک کی رضا اور شہیدانِ کربلا رضی اللہُ تعالیٰ عنہم کی ارواحِ طیبہ کو ثواب پہنچانے کی نیت سے مسلمانوں کے لیے پانی کی سبیل لگانا بلا شبہ جائز،مستحب اور ثواب کا کام ہے، حدیث پاک میں پانی کو افضل صدقہ کہا گیا ہے،نیز پانی پلانے سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔

پانی افضل صدقہ ہے، جیسا کہ سنن ابو داؤد میں ہے:”عن سعد بن عبادة انه قال: يا رسول الله، ان ام سعد ماتت، فاي الصدقة افضل؟ قال: الماء، قال: فحفر بئرا، وقال: هذه لام سعد“ ترجمہ: حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ! اُمِّ سعد (میری ماں) انتقال کر گئیں تو کون سا صدقہ ان کے لیے بہتر ہے؟ فرمایا ”پانی“، تو انہوں نے کنواں کھدوایا اور کہا یہ کنواں سعد کی ماں کے لئے ہے۔ (سنن ابو داؤد، 2/130)

مذکورہ بالا حدیث کے متعلق مراٰۃ المناجیح میں ہے: ”بعض لوگ سبیلیں لگاتے ہیں، عام مسلمان ختم فاتحہ وغیرہ میں دوسری چیزوں کے ساتھ پانی بھی رکھ دیتے ہیں، ان سب کا ماخذ یہ حدیث ہے، کیونکہ اس سے معلوم ہوا کہ پانی کی خیرات بہتر ہے۔“(مراٰۃ المناجیح، 3/138)

پانی پلانے سے گناہ معاف ہوتے ہیں، جیسا کہ حدیث پاک میں ہے:”حدثنا انس بن مالك قال: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم:اذا كثرت ذنوبك فاسق الماء على الماء تتناثر كما يتناثر الورق من الشجر في الريح العاصف“ ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےارشاد فرمایا:جب تیرے گناہ زیادہ ہو جائیں، تو پانی پر پانی پلاؤ، گناہ جھڑ جائیں گے جیسے آندھی میں درخت کے پتے گرتے ہیں۔(تاریخ بغداد، 6/403)

سبیل لگانے میں ایصالِ ثواب کی نیت ہو، جیسا کہ فتاویٰ رضویہ میں ہے:”نیت ایصالِ ثواب کی ہو اور ریا وغیرہ کو دخل نہ ہو، تو اس (یعنی پانی پلانے) کے جواز میں کوئی شبہہ نہیں، شربت کریں اور عرض کریں کہ الٰہی! یہ شربت ترویح رُوح حضرت امام (یعنی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی روح کو راحت پہنچانے) کے لیے کیا ہے، اس کا ثواب انھیں پہنچا اورساتھ فاتحہ وغیرہ پڑھیں، تو اور افضل، پھر مسلمانوں کو پلائیں۔(فتاویٰ رضویہ، 9/601)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(3)بالوں کی پی آر پی کروانا کیسا؟

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ کیا بالوں کے لئے پی آر پی کروا سکتے ہیں، اس میں ہوتا یہ ہے کہ جسم سے خون لے کر اس میں سے پلازمہ الگ کیا جاتا ہے پھر وہ سرنچ کے ذریعے بالوں کی جڑوں میں پہنچایا جاتا ہے، جس سے گنج پن دور ہوتاہے اور بال اگ آتے ہیں؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

PRP:انسانی خون کے ذریعے علاج کی شرعاً اجازت نہیں کیونکہ انسان کا خون جسم سے جدا ہونے کے بعد نجاست غلیظہ و حرام ہوتا ہے اور نجس و حرام چیز کو علاج ومعالجے کے لیے استعمال کرنا جائز نہیں، اللہ تعالیٰ نے حرام و نجس چیز میں شفا نہیں رکھی، اسی طرح جزءِ انسان سے انتفاع حاصل کرنے کی شریعت نے اس لیے بھی اجازت نہیں دی کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مکرم و محترم بنایا ہے اور اس کے جزء کے ذریعے علاج کرنا اس کی تکریم کے خلاف ہے، اگرچہ وہ جزء خود اسی مریض کے جسم کا ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ اس کا استعمال اس کی تکریم کے خلاف ہے اور صورت مسئولہ میں تو یہ جزء ناپاک بھی ہے۔

البتہ ایسی حالت ہو کہ اس کے علاوہ دوسرا کوئی علاج نہ ہو اور ایسے ڈاکٹرز جو فاسق معلن نہ ہوں اور وہ ظن غالب کے طور پر بتائیں کہ اس کے علاوہ بالوں کا کوئی دوسرا علاج نہیں تو جمال مقصود کے حصول کے لیے اس علاج کی اجازت ہوتی لیکن یہاں ایسی کوئی صورت نہیں بالوں کی سرجری کے لیے کئی جائز علاج موجود ہیں۔ لہٰذا یہاں اس علاج کی ہرگز اجازت نہیں ہے۔

PRPیعنی (Platelet Rich Plasma) میں خون کا ایک حصہ ہی استعمال ہوتا ہے، اور اس سے خون کی ماہیت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی، پلازما خون کے رقیق حصے کو کہتے ہیں، خون کے بنیادی طور پر تین حصے ہوتے ہیں ریڈ سیل، وائٹ سیل اور پلازما۔ ریڈ سیل اور وائٹ سیل یہ خون کے گاڑھے حصے ہوتے ہیں جبکہ پلازما رقیق ہوتا ہے۔ خون کو مشین میں ڈال کر اسپن کیا جاتا ہے تو وائٹ سیل اور ریڈ سیل نیچے بیٹھ جاتے ہیں اور پلازما اوپر رہ جاتا ہے جسے الگ کرلیا جاتا ہے اور بطور دوااستعمال کیا جاتا ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* نگران مجلس تحقیقات شرعیہ، دارالافتاء اہل سنت، فیضان مدینہ کراچی


Share