*مفتی محمد قاسم عطّاری
ماہنامہ فیضانِ مدینہ دسمبر 2024
(1)مسبوق ثنا کب پڑھے گا؟
سوال: کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ سِرّی نماز کی پہلی رکعت کے بعدکسی رکعت کے قیام میں شامل ہونے والا ثنا کب پڑھےگاکیا اسی وقت پڑھ سکتا ہے؟یا بقیہ نماز کی ادائیگی کرتے وقت پڑھے گا، اسی طرح جو شخص جہری نماز کی تیسری یا چوتھی رکعت میں جماعت کے ساتھ شامل ہو، اس کے لئے ثنا پڑھنے کے متعلق کیا حکم شرعی ہے؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
مسبوق (جس کی امام کے ساتھ ایک یا چند رکعتیں رہ گئیں) امام کے ساتھ سرّی نماز یعنی جس میں آہستہ آواز سے تلاوت کی جاتی ہے، اس کی کسی بھی رکعت میں قیام کے دوران شامل ہو، یا جہری نماز کی تیسری یا چوتھی رکعت(جن میں آہستہ آواز سے تلاوت کی جاتی ہے) میں قیام کے دوران شامل ہو،تو وہ امام کے ساتھ شامل ہونے کے بعد اسی وقت ثنا ”سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ۔۔۔الخ“ پڑھے گا، تاکہ ثنا اپنے محل میں دیگر ارکان سے پہلے ادا ہوجائے۔
تفصیل یہ ہےکہ مسبوق امام کے ساتھ جو رکعتیں پالیتا ہے، وہ اس کے حق میں حقیقتاً نماز کا ابتدائی حصہ ہوتا ہے،جبکہ حکماً نماز کا آخری حصہ ہوتا ہےاور جو رکعتیں امام کے سلام پھیرنے کے بعد ادا کرتا ہے،وہ اس کے حق میں حکماً نماز کا اول حصہ ہوتا ہے،جبکہ حقیقت میں نماز کاآخر ہوتا ہے، تو فقہائے کرام نے ثنا کے معاملے میں حقیقت کا اعتبار کیا،یعنی ثنا کے معاملے میں مسبوق جب شامل ہوا تو وہ اس کے لئے نماز کاابتدائی حصہ شمار ہو گااور جب بقیہ رکعتیں ادا کرنے کے لیے کھڑا ہوگا،تو وہ نماز کا آخری حصہ شمار ہو گا اور چونکہ ثنا کا مقام ابتدائے نماز ہے،لہٰذا کوئی مانع نہ ہونے کی وجہ سے وہ جماعت میں شامل ہوتے ہی ثنا پڑھےگا۔
یاد رہے!مسبوق نے جب پہلے ثنا پڑھ لی ہو، تو جب وہ اپنی بقیہ رکعتیں اداکرنے کے لئے کھڑاہوگا،تو صحیح قول کے مطابق اس وقت اس کے لئے دوبارہ ثنا پڑھنے کا حکم نہیں،اس لیے کہ فقہائے کرام نے مسبوق کو اپنی بقیہ رکعت کے شروع میں ثنا پڑھنے کا حکم اس صورت میں دیا ہے جب وہ شروع میں ثنا نہ پڑھ سکا ہو۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
(2)احرام پر نام اور ٹوپی پر مقدس کلمات لکھوانا
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین ان مسائل کے بارے میں کہ
(1)آج کل بعض لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ احرام کی چادروں پر دھاگے کے ذریعے نام لکھوالیتے ہیں،کیا اس طرح کڑھائی کرواکر اپنا نام لکھوانا،جائز ہے؟اگر کسی نے حج یا عمرہ میں ایسا احرام پہنا تو کیا اس پر کفارہ لازم ہوگا؟
(2)بعض ٹوپیاں ایسی دیکھی گئی ہیں جن پر مقدس کلمات لکھے ہوتے ہیں جیسے ماشاء اللہ، یہ لکھوانا اور ان کو پہننا کیسا؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
شریعتِ مطہرہ نے جن چیزوں کے ادب و احترام کا حکم ارشاد فرمایا ہے،ان میں سے کلمات و حروف بھی ہیں،اب چاہے یہ بالکل متصل لکھے ہوئے ہوں یا الگ الگ،سیاہی وغیرہ کے ذریعے لکھے جائیں یا دھاگے کے ذریعے کڑھائی کرکے،دنیا کی کسی زبان میں بھی ہوں،بہر صورت ان کا ادب و احترام شریعت کو مطلوب ہے اور اگر وہ تحریر مقدس کلمات والی ہوتو اس کا ادب و احترام اور بڑھ جاتا ہے،لہٰذا کسی بھی ایسی چیز پر ان کا لکھنا کہ جس سے ان کی بےادبی و بے حرمتی ہو یا آئندہ اس کا اندیشہ ہو،ہر صورت میں ممنوع و مکروہ ہے،اسی وجہ سے فقہاء کرام علیہم الرحمۃ اجمعین نے اپنی کتب میں واضح طور پر دیواروں اور مصلوں پر قرآن یا اللہ پاک کے نام وغیرہ کسی بھی قسم کی تحریر سے منع فرمایا ہے۔
لہٰذا سوال کا جواب یہ ہے کہ احرام کی چادریا ٹوپی پر دھاگے وغیرہ سے کڑھائی کرواکر مقدس کلمات یا اپنا نام لکھوانے سے بچنا چاہئے،کیونکہ یہ چیزیں کبھی تو زمین پر رکھی ہوتی ہیں یا گر جاتی ہیں اورکبھی انسان ان کے ساتھ بیت الخلاء بھی چلاجاتا ہے،نیز جب ان کو دھویا جاتا ہے تو ان کاغسالہ نالیوں وغیرہ بے ادبی والے مقامات پرجاتاہے اور احرام پر لکھا ہونے کی صورت میں بیٹھنے یا لیٹنے میں وہ تحریر جسم کے نیچے آجاتی ہے، اسی طرح ٹوپی پر اگر بالکل پیشانی کی جانب والے حصے پر ماشاء اللہ وغیرہ لکھا ہو تو سجدے میں وہ حصہ زمین پر لگتا ہے یا سر کے بالکل بیچ والے حصے پر لکھا ہوتو سجدے میں آگے والے نمازی کے پاؤں بالکل اس کی طرف ہوجاتےہیں اور ان تمام صورتوں کا بے ادبی پر مشتمل ہونا واضح ہے اور اگر ان کے ادب و احترام کا خیال بھی رکھا جائے تب بھی ذکر کی گئی صورتوں کے مطابق آئندہ ان کی بے حرمتی ہونے کا قوی اندیشہ ہے،لہٰذا اس سے بچنے کا حکم ہی دیا جائے گا، البتہ ایسا احرام پہن لینے کی وجہ سے کوئی کفارہ لازم نہیں ہوگا کہ احرام پر کچھ اس طرح لکھا ہونا جنایت نہیں جس سے کفارہ لازم ہو۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
(3)مسبوق پہلے سلام کے بعد بقیہ نماز کیلئے کھڑا ہو یا دوسرے؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان ِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ وہ شخص جو ایک یا دو رکعتوں کے بعد امام صاحب کے ساتھ جماعت میں شامل ہوا۔ اب امام صاحب جب نماز مکمل کر کے سلا م پھیریں گے، تو وہ شخص اپنی بقیہ نماز ادا کرنے کےلیے کس وقت کھڑا ہوگا؟ امام کے ایک طرف سلام پھیرتے ہی یا پھر دوسرا سلام پھیرنے کے بعد؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
مسبوق یعنی جس کی کوئی رکعت امام کے ساتھ ادا کرنا رہ گئی، امام کے دوسرا سلام پھیرنے کے بعد اس وقت اپنی بقیہ نماز ادا کرنے کے لیے کھڑا ہو،جب اسے یقین ہوجائے کہ امام پر سجدۂ سہو نہیں۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
(4)الٹے ہاتھ سے کھانے پینے کا حکم
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ ہمیں بچپن ہی سے یہ بتایا گیا ہے کہ ہمیشہ سیدھے ہاتھ سے کھانا پینا چاہئے، الٹے ہاتھ سے کھانا پینا منع ہے،پوچھنا یہ ہے کہ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ یعنی کیا سیدھے ہاتھ سے کھانا پینا واجب ہے؟ کیا الٹے ہاتھ سے کھانا پینا بالکل حرام و ناجائز ہے؟یہ حکم اور ممانعت کس درجہ کی ہے؟ برائے کرم رہنمائی فرمائیں۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
سیدھے ہاتھ سے کھانا اور سیدھے ہاتھ سے پینا،کھانے پینے کے سنن و آداب میں سے ہے،حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا مبارک طریقہ بھی یہی تھا،آپ علیہ الصّلوٰۃ و السلام نے اسی کا حکم ارشاد فرمایا جبکہ بائیں ہاتھ سے کھانے اور پینے سے منع فرمایا اور اس کو شیطان کا فعل قرار دیا،لہٰذا کسی عذر کے بغیر بائیں ہاتھ سے کھانا یا پینا، اگرچہ حرام و گناہ نہیں لیکن اس سنتِ مستحبہ کے خلاف اور شریعتِ مطہرہ کی نظر میں ناپسندیدہ عمل ضرور ہے۔ ہاں! اگر کوئی عذر ہو جیسے سیدھا ہاتھ نہ ہو یا سیدھا ہاتھ شل ہو تو ایسی صورت میں بائیں ہاتھ سے کھانے پینے میں کوئی حرج نہیں۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* نگران مجلس تحقیقات شرعیہ، دارالافتاء اہل سنت، فیضان مدینہ کراچی
Comments