مقتدی نے بھول کر امام سے پہلے سلام پھیر دیا تو؟ مع دیگر سوالات

دارُالافتاء اہلِ سنّت

*مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

ماہنامہ ستمبر 2024

(1)مقتدی نے بھول کر امام سے پہلے سلام پھیردیا تو؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ جماعت میں شروع سے شامل مقتدی اگر بھولے سے امام کے سلام پھیرنے سے پہلے ہی ایک طرف سلام پھیرے، پھر یاد آنے پر فوراً لوٹ آئے اور امام کے ساتھ سلام پھیر کر نماز مکمل کرے، تو اس صورت میں اُس کی نماز کا کیا حکم ہوگا؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں اُس مقتدی کی وہ نماز درست ادا ہوئی ہے، اسے دہرانے کی کوئی حاجت نہیں نہ ہی مقتدی پر سجدہ سہو لازم ہوا۔

بیان کردہ حکم کی ایک نظیر یہ ہے کہ مسبوق مقتدی اگر بھولے سے امام سے پہلے ہی سلام پھیرلے تو اس صورت میں نہ تو اُس مسبوق مقتدی کی نماز فاسد ہوتی ہے اور نہ ہی اُس پر سجدہ سہو لازم ہوتا ہے کہ امام کے سلام پھیرنے سے پہلے وہ مقتدی ہے، اُس سے یہ غلطی حالتِ اقتداء میں واقع ہوئی ہے اور مقتدی کا سہو معتبر نہیں۔

بالفرض اگر وہ مقتدی پوچھی گئی صورت میں قصداً امام سے پہلے ہی سلام پھیر کر نماز مکمل کرلیتا تو اس صورت میں اُس مقتدی کی وہ نماز مکروہِ تحریمی واجب الاعادہ ہوتی کہ مقتدی پر تمام فرائض و واجبات میں امام کی اتباع و پیروی واجب ہے اور بلا ضرورتِ شرعیہ اس واجب کا ترک مکروہِ تحریمی،ناجائز و گناہ ہے۔ اب جبکہ صورتِ مسئولہ میں مقتدی نے سہواً امام سے پہلے سلام پھیرا لیکن پھر نماز میں لوٹ کر امام کی اتباع میں بھی سلام پھیر کر اپنی اُس نماز کو مکمل کیا تو یہاں امام کی متابعت پائی جانے کی وجہ سے اُس مقتدی کی نماز بغیر کسی کراہت کے درست ادا ہوئی ہے۔(ردالمحتار مع الدر المختار، 2/202-بہارِ شریعت، 1/519-البحر الرائق شرح كنز الدقائق، 1/401-فتاوٰی رضویہ،7/274، 275ملتقظاً)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(2)چلتے پھرتے قراٰنِ کریم کی تلاوت کرنا کیسا؟

 سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ منزل دہرانے کے لئے یا ویسے ہی تلاوتِ کلامِ پاک کرتا ہوں، بیٹھے بیٹھے تلاوت کرنے میں سستی آجاتی ہے، تو کھڑے ہوکر چلتے چلتے تلاوت کرتا ہوں، معلوم یہ کرنا ہے کہ میں چلتے ہوئے تلاوتِ کلامِ پاک کرسکتا ہوں یا نہیں؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

چلتے ہوئے تلاوت کرنا جائز ہے جبکہ چلنے کی وجہ سے دل تلاوت کے علاوہ کسی اور طرف مشغول نہ ہوتا ہے، اگرچلنے کی وجہ سے توجہ بٹتی ہو یا دل تلاوت کے علاوہ کسی اور طرف مشغول ہورہا ہو، تو اس صورت میں چلتے ہوئے تلاوت کرنا مکروہ و ناپسندیدہ عمل ہے۔(حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح،ص143-حلبی کبیر، ص496-بہار شریعت،1/551)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(3)عقیقہ درست نہ ہونے کی ایک صورت

 سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ جو شخص روزانہ جانور ذبح کر کے گوشت بیچتا ہے، میں نےاس سے یہ بات کی کہ بڑے جانور میں سات حصے ہوتے ہیں، مجھے ایک حصہ عقیقہ کے لئے چاہئے، تو آپ جو جانور خریدیں اس کی قیمت کو سات حصوں میں تقسیم کر کے ایک حصہ کی قیمت میں ادا کر دوں گا،تو جانور ذبح ہونے کے بعد گوشت کا ایک حصہ مجھے دے دینا اور باقی چھ حصہ آپ بیچ دینا جیسا کہ آپ بیچتے ہیں، تو کیا اس طریقہ کار پر عقیقہ درست ہوجائے گا؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں عقیقہ کرنے کا جو طریقہ کار اختیار کیا جارہا ہے، اس طریقہ کار کے مطابق عقیقہ کرنے سے عقیقہ درست نہیں ہوگا۔

اس مسئلہ کی تفصیل یہ ہے کہ:

قربانی کے بڑے جانور میں مسلمان افراد شریک ہوں،تو اس جانور کی قربانی درست ہونے کے لئے ضروری ہے کہ اس میں جتنے مسلمان افراد شریک ہیں تمام کا مقصود قربت یعنی نیکی ہو،یہی حکم بشمول عقیقہ اورتمام قربانیوں کا ہے یعنی کسی بھی قربت کی ادائیگی کے لئےبڑے جانور میں حصہ ڈالا، تو اس کے صحیح ہونے کے لئے ضروری ہے کہ اس میں جتنے مسلمان افراد شریک ہوں، تمام کا مقصود قربت ہو، اگر کسی ایک کا ارادہ بھی قربت کا نہ ہو، تو اس صورت میں کسی کی بھی قربانی نہ ہوگی۔ پوچھی گئی صورت میں آپ کا مقصود تو عقیقہ ہے جو اولاد کی نعمت ملنے پر اللہ پاک کا شکر ادا کرتے ہوئے کرنا بلا شبہ قربت ہے، لیکن جس کے ساتھ آپ شریک ہونا چاہ رہے ہیں، اس کا مقصد گوشت حاصل کر کےبیچنا ہے جو کہ قربت میں داخل نہیں لہٰذا اس طرح عقیقہ کرنے سے عقیقہ ادا نہیں ہوگا۔(حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار،11/28-بدائع الصنائع،6/306-فتاویٰ رضویہ، 20/593، 594)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(4)کمپاس والی جائے نماز پر نماز پڑھنے کا حکم

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے چچا عمرہ سے واپس آئے اور وہ ایک جائے نماز لے کر آئے جو انہوں نے مجھے تحفے میں دی ہے۔ اس جائے نماز کے درمیان میں قبلہ کی سمت دکھانے والا کمپاس نصب ہے،نماز ادا کرتے ہوئے اس پر نظر بھی پڑتی ہے، کیا اس جائے نماز پر نماز پڑھ سکتے ہیں؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

اللہ پاک نے قرآنِ مجید میں کامیاب مؤمنین کی صفات بیان کرتے ہوئے ایک صفت یہ بیان فرمائی کہ وہ نماز پڑھتے ہوئے اپنی نمازوں میں خشوع و خضوع اختیار کرتے ہیں،اس کے پیشِ نظر ہر مسلمان کو اپنی نماز میں خشوع و خضوع اختیار کرنا چاہئے، ظاہری اعضا میں خشوع کا معنی یہ ہے کہ نمازی کے تمام اعضاسکون میں ہوں اور نظر قیام کی حالت میں مقامِ سجدہ پر، حالتِ رکوع میں پشتِ قدم پر، حالتِ سجود میں ناک کی طرف اور حالتِ قعدہ میں اپنی گود کی طرف ہو۔ اب اگر ایسے مصلے پر نماز پڑھی جائے گی جس پر قبلہ کی سمت دکھانے والا کمپاس نصب ہے، تو اس صورت میں خاشعین کی طرح نماز پڑھتے ہوئے قیام، رکوع اور قعود کی حالت میں بار بار نظر اس کمپاس کی طرف اٹھے گی،توجہ اسی طرف مبذول ہوتی رہے گی، جس کی وجہ سے خشوع و خضوع میں خلل واقع ہوگا، لہٰذا ایسے مصلے پر نماز پڑھنا مکروہِ تنزیہی ہوگایعنی ایسے مصلے پر نماز پڑھنا اگرچہ گناہ نہیں ہے، لیکن اس پر نماز پڑھنے سے بچنا چاہئے۔(مراقی الفلاح شرح نور الایضاح، ص273-وقار الفتاویٰ،2/514)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* محقق اہل سنت، دار الافتاء اہل سنت نور العرفان، کھارادر کراچی


Share