نعمت ملے تو شکر ،مصیبت پہنچے تو صبر

شرح حدیثِ رسول

نعمت ملے تو شکر، مصیبت پہنچے تو صبر

*مولانا ابورجب محمد آصف عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ مئی 2024ء

انسان کی زندگی یکساں نہیں گزرتی کہ اس کو خوشیوں کی ٹھنڈی چھاؤں ہی میسر رہے کبھی غموں کی تیز دھوپ اسے نہ جُھلسائے،بلکہ زندگی خوشیوں اور غموں کا مجموعہ ہے۔ خوشی ملنے پر انسان کا ری ایکشن کیا ہونا چاہئے اور غم سے واسطہ پڑنے پر انسان کو کیا کرنا چاہئے ؟ بندۂ مؤمن کی شان تو یہ ہے کہ وہ خوشی ملنے پر اپنے رب کریم کا شکر ادا کرتا ہے اور مصیبت میں صبر کرکے ثواب کماتا ہے،گویا اس کے لئے دونوں صورتوں میں نفع کمانے کا موقع ہوتا ہے۔اس بات پر خوش گوار حیرت کا اظہار کرتے ہوئے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:

حدیثِ رسول

عَجَبًا لِاَمْرِ الْمُؤْمِنِ اِنَّ اَمْرَهُ كُلَّهُ لَهُ خَيْرٌ وَلَيْسَ ذٰلِكَ لِاَحَدٍ اِلَّا لِلْمُؤْمِنِ اِنْ اَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ وَاِنْ اَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ

ترجمہ:مؤمن پر تعجب ہے کہ اس کا ہر معاملہ خیروالا ہے اور یہ بات سوائے مؤمن کے کسی کو حاصل نہیں، اگر مؤمن کو خوشی ملے توشکر کرتا ہے جو اس کے لئے خیر ہے اور اگر اسے مصیبت پہنچے تو صبر کرتا ہے،اس میں بھی مؤمن کے لئے خیر ہے۔ ([1])

شرح حدیث

(1)”ہر معاملہ خیروالا ہے“ سے مراد یہ ہے کہ مؤمن کے لیے دنیا میں ”خیر“ بھی خیر ہے، ”شر“ بھی خیر، راحت و آرام بھی خیر ہے، مصیبت و آلام بھی خیر،وہ ہر طرح نفع میں ہے۔([2])بعض معاملات دیکھنے میں شر والے ہوتے ہیں لیکن ایسا وقتی طور پر ہوتا ہے،مستقبل میں یہ بھی خیروالے ہی ثابت ہوتے ہیں۔([3])

(2)”یہ بات سوائے مؤمن کے کسی کو حاصل نہیں“ نہ کافروں کو اور نہ ہی منافقوں کو۔([4])

(3)یہاں سَرَّاءُ (خوشی) سے مراد نعمتیں، زندگی کی راحتیں اور عبادت كرنے کی توفیق کا ملنا ہے جبکہ ضَرَّاءُ (پریشانی) سے مراد تنگ دستی، بیماری، مصیبت اور بلائیں ہیں۔([5])

(4)حضرت علامہ مناوی رحمۃُ اللہِ علیہ اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں: اگرمومن کو صحت،سلامتی، مال اور عزت ملتی ہے اور وہ اس پر اللہ پاک کا شکر ادا کرتا ہےتو اس کا نام شاکرین کی لسٹ میں لکھ دیا جاتا ہے اورجب کوئی مصیبت پہنچتی ہےاور وہ صبر کرتا ہے تو اسے صابرین کے گروہ میں شامل کردیا جاتا ہے جن کی تعریف قراٰنِ کریم میں بیان کی گئی ہے۔مؤمن جب تک زندہ رہتا ہے اس کے سامنے خیر کے راستے کھلے رہتے ہیں اور وہ نعمت و مصیبت کے درمیان رہتا ہے، نعمت ملنے پر اس پر مُنعِم یعنی ربّ ِ کریم کا شکر لازم ہوتا ہے اور مصیبت پہنچنے پر اس پر صبر لازم ہوتا ہے،وہ حکمِ الٰہی پر عمل کرتا ہے اور ربّ ِ عظیم کے منع کرنے پر رُک جاتا ہے۔ ایسا مؤمن کی موت تک ہوتا رہتا ہے۔([6])

خوشی ملنے پر سجدۂ شکر کیا کرتے

حضرت سیِّدُنا ابوبکرہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: جب حضور نبی ِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کوکوئی خوشی حاصل ہوتی تو آپ سجدۂ شکر ([7]) ادا کرتے۔([8])

اس امت کی خصوصیت

حضور نبیِّ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک نے حضرت عیسیٰ علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام سے فرمایا: اے عیسیٰ! تمہارے بعد میں ایسی امت بھیجوں گا جو بلا حلم و علم نعمت پر حمد و شکر بجا لائے گی اور مصیبت پر صبر و ثواب کی طالب ہوگی۔([9])

شکر اور صبر کرنے والے کو صدیق لکھا جاتا ہے

حضرتِ سیِّدُنا ابنِ عبّاس رضی اللہ عنہما نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک نے سب سے پہلی چیز لَوحِ محفوظ میں یہ لکھی کہ میں اللہ ہوں میرے سوا کوئی عبادت کا مستِحق نہیں! محمد (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) میرے رسول ہیں۔جس نے میرے فیصلے کوتسلیم کرلیا اور میری نازل کی ہوئی مصیبت پر صبر کیا اور میری نعمتوں کا شکر ادا کیا تو میں نے اس کو صِدّیق لکھا ہے اور اس کو صِدّیقین کے ساتھ اٹھاؤں گا اور جس نے میرے فیصلے کو تسلیم نہیں کیا اور میری نازِل کی ہوئی مصیبت پر صَبْر نہیں کیا اور میری نعمتوں کا شکر ادا نہیں کیا وہ میرے سوا جسے چاہے اپنامعبود بنالے۔([10])

صبر اور شکر کی فضیلت پر 6 روایات

(1)پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: صبر نصف ایمان ہے اور یقین پورا ایمان ہے۔([11])

(2)فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: مَنْ یَّتَصَبَّرْ یُصَبِّرْہُ اللہُ وَمَا اُعْطِیَ اَحَدٌ عَطَاءً خَیْرًا وَاَوْسَعَ مِنْ الصَّبْرِ یعنی جو صبر چاہے گا اللہ پاک اسے صبر عطا فرمائے گا اور کسی کو صبر سے بہتر اور وسیع کوئی چیز نہ ملی۔([12])

(3)حضرت جنید رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اَلصَّبْرُ مِفْتَاحُ كُلِّ خَيْرٍ یعنی صبر ہر بھلائی کی چابی ہے۔([13])

(4)فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:جسے شکر کرنے کی توفیق ملی وہ نعمت کی زیادتی سے محروم نہ ہو گا کیونکہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا ہے:لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ یعنی اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں  تمہیں  اور زیادہ عطا کروں  گا۔([14])

(5)رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک شخص کو تین نصیحتیں فرمائیں جن میں سے ایک یہ ہے:عَلَيْكَ بِالشُّكْرِ فَاِنَّ الشُّكْرَ زِيَادَةٌ یعنی  شکر کو خود پر لازم کرلو کیونکہ شکر سے نعمت زیادہ ہوتی ہے۔([15])

(6)حضرت سیِّدُنا ابن مسعود رضی اللہُ عنہ نے فرمایا: اَلشُّکْرُ نِصْفُ الْاِیْمَان یعنی شکر نصف ایمان ہے۔([16])

انسان کو آزمایا جاتا ہے

حضرت سیِّدُنا عبدالملک بن اَبجَر رحمۃُ اللہِ علیہ نے ارشاد فرمایا: لوگوں کو عافیت دے کر آزمایا جاتا ہے کہ وہ شکر کیسے ادا کرتے ہیں؟ اور مصیبت میں مبتلا کیا جاتا ہے کہ وہ اس پر کس طرح صبر  کرتےہیں؟([17])

قارئین!ہمیں خوشی ملے یا غمی! دو آپشن ہمارے سامنے ہوتے ہیں، شکر اور صبر کریں یا ناشکری اور بے صبری کا مظاہرہ کریں، شکر کرنے سے نعمتوں میں اضافہ ہوتا ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

(لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ(۷))

ترجَمۂ کنزُالایمان:اگر احسان مانو گے تو میں تمہیں اور دوں گا اور اگر ناشکری کرو تو میرا عذاب سخت ہے۔([18])

جبکہ صبر کرنے میں ربِ کریم کی رضا و خوشنودی حاصل ہوتی ہے،چنانچہ ہمیں شکر اور صبر کو اپنا کرکامیابی کے راستے پر چلنا چاہئے۔

اللہ کریم ہمیں اپنا شاکر اور صابر بندہ بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* استاذ المدرّسین، مرکزی جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ کراچی



([1])مسلم،ص 1222، حدیث:7500

([2])مراٰۃ المناجیح، 7/111

([3])دیکھئے: مرقاۃ المفاتیح، 9/152، تحت الحدیث: 5297

([4])فیض القدیر، 4/399،تحت الحدیث: 5382

([5])دیکھئے:مرقاۃ المفاتیح، 9/152،تحت الحدیث:5297

([6])دیکھئے: فیض القدیر، 4/399،تحت الحدیث:5382

([7])سجدۂ شکر مثلاً اولاد پیدا ہوئی یا مال پایا یا گمی ہوئی چیز مل گئی یا مریض نے شفا پائی یا مُسافر واپس آیا غرض کسی نعمت پر سجدہ کرنا مستحب ہے۔ (بہارِ شریعت، 1/738) سجدہ کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ کھڑا ہو کر اَللہُ اَکْبَرْ کہتا ہوا سجدہ میں جائے اور کم سے کم تین بار سُبْحٰنَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی کہے، پھر اَللہُ اَکْبَرْ کہتاہوا کھڑا ہو جائے، پہلے پیچھے دونوں بار اَللہُ اَکْبَرْ کہنا سنت ہے اور کھڑے ہو کر سجدہ میں جانا اور سجدہ کے بعد کھڑا ہونا یہ دونوں قیام مستحب۔(بہارِ شریعت، 1/731))

([8])ابن ماجہ، 2/163، حدیث:1394

([9])حلیۃ الاولیاء، 1/290، حدیث:766

([10])تفسیرقرطبی، 10/210

([11])حلیۃ الاولیاء، 5/38، حدیث:6235

([12])بخاری، 1/496، حدیث:1469

([13])شعب الایمان، 7/201، رقم: 9996

([14])در منثور، ابرٰھیم، تحت الآیۃ:7، 5/9

([15])موسوعہ ابن ابی الدنیا، 1/520، حدیث:165

([16])احیاء العلوم،4/100

([17])حلیۃ الاولیاء، 5/98

([18])پ13، ابرٰھیم:7


Share