دیواروں پر لفظِ ”یامحمد“ لکھنا کیسا؟  مع دیگر سوالات

دارالافتا اہلِ سنّت

* مفتی محمد قاسم عطاری

ماہنامہ نومبر 2021

(1)دیواروں پر لفظ “ یا محمد “ لکھنا کیسا ؟

سوال : کیافرماتے ہیں علمائےکرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ گھروں اور مساجد وغیرہ عمارات کی دیواروں پر “ یا محمد “ لکھا ہوتا ہے ، کیا یہ شرعا ًدرست ہے؟ اور اگر پہلے سے کسی پینٹ سے لکھا ہو یا تختی وغیرہ لگی ہو ، تو اب اس کا کیا کیا جائے؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

نبیِّ کریم   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کو “ یامحمد “ کےالفاظ کےساتھ پکارنا ، شرعاً درست نہیں کیونکہ قراٰنِ پاک میں رسولُ اللہ   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کواس طرح پکارنےسےمنع کیا گیا ہے ، جیسے ہم ایک دوسرے کو اس کا نام لےکر پکارتے ہیں۔

لہٰذا “ یامحمد “ کہنے کی بجائے یارسولَ اللہ ، یاحبیبَ اللہ ، یانبیَّ اللہ وغیرہ الفاظ کے ساتھ ندا کی جائے اور لکھتے وقت بھی اسی احتیاط کو ملحوظ رکھا جائے اور اگر گھر یا مسجد وغیرہ کی دیوار پر “ یامحمد “ لکھا ہو ، تو اسے مٹاکر یا اگر کوئی تختی لگی ہو ، تو اسے اتار کر “ یارسولَ اللہ   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کی تختی لگائی جائے۔ اور اسے لگانے میں یہ احتیاط بھی کی جائے کہ اسے ایسی جگہ پر ہی لگایا جائے ، جہاں کسی قسم کی بےادبی کااحتمال نہ ہو اور بارش وغیرہ کاپانی اس تختی سے لگ کر زمین پر نہ گرےاورجہاں یہ احتمال موجود ہو ، جیسے مکان کی باہر والی دیوار ، کہ جہاں اس مقدّس تحریر پر بارش کا پانی لگ کر زمین پر گرےگا ، تو ایسی جگہ لگانے سےاجتناب کیاجائے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(2)قرض پر نفع لیناکیسا ؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میں ایک کمپنی میں کام کرتا ہوں۔ وہاں ایک شخص کمپنی کو گوشت سپلائی کرتا ہے۔ اس سے میری دعا و سلام ہوئی ، تو اس نے مجھ سے کہا کہ میں پورا مہینا کمپنی کو گوشت سپلائی کرتا ہوں ، جس کا بِل کمپنی ساتھ ساتھ دیتی رہتی ہے ، لیکن پیمنٹ مہینے بعد ملتی ہے ، جس وجہ سے وہ مجھ سے اس طرح کا ایگریمنٹ کرنا چاہتا ہے کہ کمپنی سے وہ بِل لے کر مجھے دے دیا کرے گا اور جتنی رقم بنتی ہوگی ، میں اُس کو اپنی طرف سے دے دیا کروں گا اور پھر مہینے بعد جب کمپنی کی طرف سے اس کو پیمنٹ ملےگی ، تو جتنی رقم مجھ سے لی ہوگی ، وہ بھی مجھے واپس کرے گا اور ساتھ جتنا گوشت سپلائی کیا ہوگا ، فی کلو کے حساب سے دس روپے مزید مجھے دے گا۔ شرعی راہنمائی فرما دیں کہ یہ طریقہ درست ہے یا نہیں ؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں بیان کردہ طریقہ خالص سود ہے ، لہٰذا آپ یہ طریقہ نہیں اپنا سکتے ، کیونکہ آپ جو رقم اُس شخص کو دیں گے ، اس کی شرعی حیثیت قرض والی ہے ، یعنی آپ اُس شخص کو قرض کے طور پر رقم دیں گے اور قرض کا اصول یہ ہوتا ہے کہ جتنی رقم قرض دی ہو ، اُتنی ہی واپس لی جاتی ہے۔ اس سے زیادہ لینا طے کیا جائے ، تو یہ سود ہوتا ہے ، جس کا لینا دینا ناجائز و حرام ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(3)زندگی میں ہی کسی نیک کام کی وصیت کرنا

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کچھ لوگ اپنی زندگی میں کسی نیک کام سے متعلق وصیت کر جاتے ہیں کہ ان کے مرنے کے بعد ان کا مال فلاں نیک کام مثلاً : مسجد مدرسے ، دینی طالبِ علم یا کسی غریب یتیم کی مدد میں خرچ کر دیا جائے ، پوچھنا یہ ہے کہ کیا اسلام ہمیں اس چیز کی اجازت دیتا ہے کہ ہم اپنی زندگی میں ہی اپنے مال کے بارے میں کوئی وصیت کر جائیں کہ ہمارے فوت ہونے کے بعد ہمارا یہ مال کسی نیک کام میں یا صدقہ جاریہ کے طور پر خرچ کر دیا جائے ؟ اگر اسلام اس کی اجازت دیتا ہے تو اس کی مقدار کیا ہے ؟ یعنی کس حد تک ہم اپنے مال سے وصیت کر سکتے ہیں ؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

اسلام اپنے ماننے والوں کی دنیا و آخرت دونوں جہاں کی مصلحتوں کا خیال رکھتا ہے۔ ان کی دنیا بھی سنوارتا ہے اور آخرت کی دائمی زندگی بہتر بنانے کے طریقے بھی سکھاتا ہے۔ اسی لئے قراٰن و حدیث میں بارہا اس چیز پر ابھارا گیا کہ اپنی آنے والی دائمی زندگی کے لئےجمع کرو ۔ ایک جگہ یوں سمجھایا کہ انسان کے صرف تین ہی مال ہیں : ایک جو کھا کر ختم کر دیا ، دوسرا جو پہن کر پرانا کر دیا اور تیسرا جو صدقہ کرکے آخرت کے لئے ذخیرہ کرلیا۔ وصیت کی اجازت دے کر شریعت نے آدمی کی بہت سی جائز خواہشات اور اخروی حاجات کی تکمیل کا ذریعہ بنایا ہے ، کیونکہ وصیت میں بعض اوقات انسان کسی دوست ، رشتے دار کے فائدے کا کوئی کام کرتا ہے ، جو فی نفسہٖ جائز و مباح ہے اور وصیت میں خصوصا ًنیکی کے کاموں کی تاکید کی جاتی ہے ، جیسے مسجد ، مدرسے ، دین یا غریب ، یتیم کی خدمت وغیرہ۔

 وصیت کرنے کا حکم یہ ہے کہ اگراس کے وصیت کرنے سے کہ وصیت کا مال نکال کر باقی ورثاء میں تقسیم کریں گے ، تو ورثاء تنگدست ہوجائیں گے ، تو بہتر ہے کہ وصیت نہ کرے ورنہ اس کے لئے وصیت کرنا مستحب ، عظیم اجر و ثواب کا کام ہے اور شرعاً اس کی مقدار یہ ہے کہ بندہ اپنے مال میں سے ایک تہائی حصے کی وصیت کر سکتا ہے۔ ایک تہائی سے زیادہ کی وصیت معتبر نہیں ہوتی۔ اسی طرح جو شخص پہلے سے ہی وراثت کا حق دار بن رہا ہو ، اس کے لئے کی گئی وصیت بھی معتبر نہیں ہوتی ، البتہ اگر کسی شخص نے ایک تہائی سے زیادہ کی یا کسی وارث کے لئے وصیت کی اور اُس کے فوت ہونے کے بعد تمام ورثاء تہائی سے زیادہ یا وارث کے لئے کی گئی وصیت نافذ کرنے کی اجازت دے دیں اور وہ سب اجازت دینے کے اہل بھی ہوں ، تو یہ وصیتیں بھی قابلِ عمل ہوں گی۔

نوٹ : کسی شخص نے وصیت کی ہو یا کرنی ہو ، اس کی مکمل معلومات فراہم کرکے خاص اپنے مسئلے سے متعلق دار الافتاء اہلِ سنّت سے  رہنمائی حاصل کر سکتا ہے ۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* نگران مجلس تحقیقات شرعیہ ، دار الافتاء اہل سنت فیضان مدینہ ، کراچی


Share