دُعا میں کیا مانگیں؟

حدیث شریف اور اُس کی شرح

دعا میں کیا مانگیں؟

* مولانا ناصر جمال عطاری مدنی

ماہنامہ نومبر 2021

اللہ پاک سے رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یہ دُعا مانگتے : اَللّٰهُمَّ اَحْسِنْ عَاقِبَتَنَا فِي الْاُمُورِ كُلِّهَا وَاَجِرْنَا مِنْ خِزْيِ الدُّنْيَا وَعَذَابِ الْآخِرَة یعنی اے اللہ! ہمارے تمام امور میں ہمارے انجام کو اچھا کردے اور ہمیں دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب سے پناہ میں رکھنا۔ [1]

اللہ پاک سے بھلائی مانگنے کو “ دُعا “ کہتے ہیں۔ اللہ پاک نے قرآنِ کریم میں دعا کرنے کا حکم بھی دیا ہے اور دُعا قبول کرنے کی خوش خبری بھی سنائی ہے۔ [2]نیز یہ بھی ارشادِ ربانی ہے : اے ابنِ آدم! اگر تو مجھ سے مانگے گا تو میں تجھے دوں گا اور تو مجھ سے نہیں مانگے گا تو میں تجھ پر غضب فرماؤں گا۔ [3]

رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دُعا کی اہمیت یوں بیان فرمائی ہے : اَلدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَةِ یعنی دُعا عبادت کا مغز ہے۔ [4] ایک موقع پر یہ بھی ارشاد فرمایا : اَلدُّعَاءُ سِلَاحُ الْمُؤمِنِ وَعِمَادُ الدِّیْنِ وَ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یعنی دُعا مؤمن کا ہتھیار ، دِین کا سُتُون اور آسمان و زمین کا نُور ہے۔ [5]

دُعا میں کیا مانگا جائے؟

اس سلسلے میں اللہ پاک کے آخری نبی حضرت محمدِ مصطفےٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اللہ سے اُس کا فضل مانگو کہ اللہ کو “ مانگنا “ پسند ہے۔ [6] رحمتِ عالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے “ فضلِ الٰہی “ پر مشتمل بہت سی جامع دعائیں ہمیں سکھائی ہیں ، اُنہی میں سے ایک دعا عافیت مانگنے کی ترغیب پر مشتمل مذکورہ حدیث میں ذکر کی گئی ہے۔

شروع میں مذکور حدیثِ پاک میں تمام کاموں میں حسنِ اختتام طلب کرنے کے ساتھ دنیا کی رُسوائی اور عذابِ آخرت سے پناہ کی دعا مانگی گئی ہے۔ تمام کاموں میں حُسنِ اختتام سے مراد یہ ہے کہ ہمارے ہر عمل کا نتیجہ اچھا ہو اور دنیا کی رُسوائی سے مراد مصیبت ، غرور ، دھوکے اور دشمن کے تسلّط سے پناہ ہے۔ [7]

اِن تین دعاؤں کی تفصیل ملاحظہ کیجئے :

(1)تمام جائز کاموں میں حُسنِ اختتام :

یہ بات ذہن میں رکھئے کہ اچھے کام کا نتیجہ حسین جب کہ بُرے کام کانتیجہ بھیانک نکلتا ہے لہٰذا بُرا کرکے اچھے کی اُمید رکھنا عقل مندی نہیں۔ بسااوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ انسان کام تو اچھا شروع کردیتا ہے مگر نتیجہ خراب نکلتا ہے اور جب وہ اِس خرابی کی ظاہری وجوہات کھوجنے جاتا ہے تو اِس کام میں بدنیتی ، مستقل مزاجی کی کمی ، لَاپرواہی ، سُستی و کاہلی کی وجہ سے ہونے والی کوتاہیاں بطورِ ثبوت کے سامنے آتی ہیں لیکن جب بندہ اپنے اچھے کام کے لئے اپنے ربّ سے یوں ہم کلام ہوتا ہے تو رحمتِ الٰہی سے اُس کی اُمیدیں بندھ جاتی ہیں ، اللہ پاک بھی اپنے بندے پر کرم نوازی فرماتا ہے اور بطورِ انعام اُس کی کوشش کا اچھا رزلٹ عطا فرما دیتا ہے۔ خدانخواستہ اگر وہ بظاہر ناکام بھی ہوجائے تورحمتِ الٰہی اُس کے لئے سہارا فراہم کرتی ہے ، اُس کے ٹوٹے دل کو حوصلہ مہیا کرتی ہے اُسے نئے عزم کے ساتھ دوبارہ اپنے مقصد کو پانے کے لئے اُبھارتی ہے اِس تمام مرحلے میں رب سے تعلق باقی رکھنا اور زبان پر ناشکری کے کلمات نہ لانا اور دُعا کرتے رہنا بھی ضرور ی ہے۔ ربِّ کریم نے حدیثِ قُدسی میں دُعا مانگنے والوں کو حوصلہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : اَنَا مَعَہ ، اِذَا دَعَانِيْ یعنی بندہ جب مجھ سے دُعا کرے تو میں اُس کے ساتھ ہوں۔ [8]

(2)دنیا کی رُسوائی سے پناہ :

ہر کوئی عزت کی زندگی جینا چاہتا ہے اورذِلت و رُسوائی سے بچنے کی کوشش کرتا ہے ، اپنے طور پر وہ احتیاط کرتا ہے مگر یہ سب انسانی تدابیر ہیں جن سے بہتر نتائج حاصل کرنے کے لئے  ربِّ کریم کی کرم نوازی شاملِ حال ہونا ضروری ہے اور رحمتِ الٰہی کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا ایک ذریعہ دعا ہے لہٰذا حُضورِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِس حدیث میں ہم کو ذِلت و رُسوائی سے بچنے کی دعا مانگنے کی تعلیم دی ہے۔

(3)عذابِ آخرت سے پناہ :

عذابِ آخرت سے پناہ مانگنا کتنا اہم ہے؟ اسے سمجھنے کے لئے احادیثِ مبارکہ میں بیان کردہ عذابِات ملاحظہ کیجئے :

(1)رسولِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : انسانوں کی آگ جسے وہ جلاتے ہیں جہنم کی آگ کے ستر اجزا (یعنی حصوں) میں سے ایک جز ہے۔ صحابَۂ کرام  علیہمُ الرّضوان  نے عرض کی : یارسولَ اللہ! (عذاب کے لئے تو) یہ دنیاوی آگ ہی بہت تھی۔ نبیِّ پاک  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جہنم کی آگ میں دنیاوی آگ کی مثل انہتر (69) فیصد اضافہ کیا گیا ہے اور ہر فیصد کی گرمی اِس کے برابر ہے۔ [9]

(2)جہنمیوں کے سروں پر کھولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا تو وہ کھوپڑی کو چیرتا ہوا پیٹ تک پہنچ جائے گا اور پیٹ کے اندر کا سب کچھ کاٹ کر قدموں سے نکل آئے گا ، یہی صَہْر (یعنی گل جانا) ہے۔ اور بار بار یونہی کیا جائے گا۔[10]

(3)ایک بہت بڑی چٹان جہنم کے کنارے سے پھینکی جائے تو وہ اس میں ستر برس تک گرتی چلی جائے گی پھر بھی اس کی تہہ تک نہ پہنچ سکے گی۔ حضرت عمر  رضی اللہُ عنہ فرمایا کرتے تھے : جہنم کا ذِکْر کثرت سے کرو کیونکہ اس کی گرمی شدید ہے ، اس کی گہرائی بہت زیادہ ہے اور اس کے گُرز (یعنی ہتھوڑے) لوہے کے ہیں۔ [11]

(4)جہنم میں بُخْتی اونٹوں کی گردنوں کی مثل سانپ ہیں ان میں سے کوئی بھی سانپ ایک مرتبہ جہنمی کو ڈسے گا تو وہ اس کی گرمی چالیس سال تک محسوس کرے گا ، یونہی جہنم میں خچر کی گردن کے برابر بچھو ہیں ان میں سے کوئی بھی بچھو جہنمی کو ڈنک مارے گا تو وہ اس کی گرمی چالیس سال تک محسوس کرے گا۔ [12]

(5)جہنمیوں پر رونا مسلط کیا جائے گا تو وہ اتنا روئیں گے کہ ان کے آنسو ختم ہو جائیں گے ، پھر وہ خون کے آنسو روئیں گے حتّٰی کہ ان کے چہروں میں لمبے گڑھے بن جائیں گے ، اگر ان میں کشتیوں کو چھوڑا جائے تو ضرور چلنے لگیں۔ [13]

(6)جہنمیوں میں جسے سب سے ہلکا عذاب ہوگا اس کے آگ کے جوتے اور تسمے ہوں گے ، جس سے اس کا دماغ یوں کھولتا ہوگا جیسا کہ ہنڈیا کھولتی ہے ، وہ سمجھے گا مجھے ہی سب سے سخت عذاب ہو رہا ہے حالانکہ اسے سب سے ہلکا عذاب ہو رہا ہوگا۔ [14]

لہٰذا دنیا میں اُن تمام کاموں سے بچئے جو آخرت کے عذاب کا سبب بنیں اور یہ دعا مانگنے کا بھی معمول بنائیے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ ، ذمہ دار شعبہ فیضانِ حدیث ، المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر) ، کراچی



[1] مسند احمد ، 6 / 196 ، حدیث : 17645

[2] پ2 ، البقرۃ : 186 ، پ24 ، المومن : 60

[3] الدعا للطبرانی ، ص29 ، حدیث : 24

[4] ترمذی ، 5 / 243 ، حدیث : 3382

[5] مستدرک حاکم ، 2 / 162 ، حدیث : 1855

[6] ترمذی ، 5 / 333 ، حدیث : 3582

[7] التیسیر شرح جامع الصغیر ، 1 / 207

[8] مسلم ، ص1442 ، حدیث : 2675

[9] بخاری ، 2 / 396 ، حدیث : 3265

[10] ترمذی ، 4 / 262 ، حدیث : 2591

[11] ترمذی ، 4 / 260 ، حدیث : 2584

[12] مسنداحمد ، 6 / 216 ، حدیث : 17729

[13] ابن ماجہ ، 4 / 531 ، حدیث : 4324

[14] مسلم ، ص111 ، حدیث : 517


Share