تذکرۂ صالحین

خلیفہ مفتیِ اعظم ہند حضرت علّامہ مولانامفتی بدر القادری رحمۃُ اللہِ علیہ

* مولانا ابوالحسنین  عطّاری مدنی

ماہنامہ نومبر 2021

خلیفۂ مفتیِ اعظم ہند حضرت علّامہ مولانا بدرُالقادری مصباحی  رحمۃُ اللہِ علیہ  کی ولادت 25اکتوبر 1950ء کو گھوسی ، ضلع اعظم گڑھ ، یوپی انڈیا میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد 11سال کی عمر میں مبارک پور تشریف لائے اور درسِ نظامی کرنے کے لئے اہلِ سنّت کے مشہور ادارے دارُالعلوم اشرفیہ میں داخلہ لیا۔ 10شعبانُ المعظم1389ھ مطابق 23 اکتوبر 1969ء کو درسِ نظامی کی تکمیل کے بعد حافظِ ملت حضرت علّامہ شاہ عبدالعزیز  رحمۃُ اللہِ علیہ  بانیِ اشرفیہ سے دستارِ فضیلت حاصل کی۔

بیعت و خلافت :

23 جُمادی الاخریٰ1399ھ مطابق جون 1979ء میں آپ نے مفتیِ اعظم ہند مولانا مصطفیٰ رضا خان  رحمۃُ اللہِ علیہ  سے بیعت کی اور اجازت و خلافت بھی پائی۔ ان کے علاوہ بھی کئی بزرگوں نے اجازت وخلافت سے نوازا۔

تدریسی خدمات :

1969ء میں فارغُ التحصیل ہونے کے بعد آپ نے درسِ نظامی کی تدریس شروع کی اور ہندوستان کے کئی جامعات میں تشنگانِ علومِ دینیہ کو سیراب کیا۔

تصنیفی خدمات :

 حضرت علّامہ بدرُ القادری صاحب نے تقریباً 2درجن کُتب و رسائل تصنیف فرمائے۔ آپ نے امام یافعی  رحمۃُ اللہِ علیہ  کی کتاب “ روض الریاحین فی حکایات الصالحین “ کا بامحاورہ ترجمہ “ بزمِ اولیاء “ کے نام سے فرمایا جو کافی مشہور ہے۔ اس کے علاوہ آپ نے مختلف عنوانات پر کثیر مضامین و مقالات بھی تصنیف فرمائے۔

 اشاعتِ دین میں خدمات :

 250 سے زیادہ غیر مسلم آپ کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے جبکہ کثیر بدمذہب و بدعقیدہ لوگوں نے توبہ کر کے دُرست اسلامی عقائد کو قبول کیا۔

شعر و سخن :

اللہ پاک نے علّامہ صاحب مرحوم کو نثر کے ساتھ ساتھ نظم کی صورت میں بھی اظہارِ جذبات کی صلاحیت عطا فرمائی تھی۔ حمد و نعت ، مناقب اور دیگر اصنافِ شعر پر مشتمل آپ کے گیارہ دیوان فنِ شعر گوئی میں آپ کی مہارت کے گواہ ہیں۔ مستقل کلام لکھنے کے علاوہ آپ تضمین نگاری میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ اعلیٰ حضرت ، امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان  رحمۃُ اللہِ علیہ  کی پانچ نعتوں پر آپ نے تضمین نگاری فرمائی۔

مناقبِ عطّار :

حضرت علّامہ مولانا بدرُالقادری مصباحی  رحمۃُ اللہِ علیہ  امیرِ اہلِ سنّت علّامہ محمد الیاس عطّاؔر قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ سے بہت محبت فرماتے تھے۔ اس کا ثبوت امیرِ اہلِ سنّت سے متعلق تحریر کردہ آپ کی کئی منقبتیں ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ شہرت اس منقبت کو ملی :

مسلک کا تو امام ہے الیاس قادری                                                              تدبیر تیری تام ہے الیاس قادری

ماہنامہ اشرفیہ کا آغاز :

1974ء میں اپنے استاذِ محترم حافظِ ملّت حضرت علّامہ عبدالعزیز  رحمۃُ اللہِ علیہ  کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے اپنی مادرِ علمی جامعہ اشرفیہ مبارک پور آئے جہاں شعبۂ نشر و اشاعت کے انچارج کی حیثیت سے خدمات کا آغاز کیا۔ فروری 1976ء میں آپ نے “ ماہنامہ اشرفیہ “ کا آغاز کیا جو آج تک اپنی پوری آب و تاب سے جاری ہےاور اِنْ شآءَ اللہ حضرت کے لئے ثوابِ جاریہ کا سبب بنے گا۔

ہالینڈ میں اسلامی خدمات :

 جولائی 1978ء میں آپ نیدر لینڈ (ہالینڈ) تشریف لے گئے اور وہاں تبلیغِ اسلام و اشاعتِ علم کا سلسلہ شروع فرمایا۔ آپ کی آمد سے قبل ہالینڈ ، فرانس اور بیلجیئم وغیرہ میں مسلمانوں کے پاس کوئی مستقل اوقاتِ نماز کا نقشہ موجود نہ تھا اور نہ ہی رویتِ ہلال کا باقاعدہ اہتمام ہوتا تھا۔ آپ نے مستقل اوقاتِ نماز کا نقشہ مہیا کرنے کے علاوہ یہاں رویتِ ہلال کا باقاعدہ سلسلہ بھی شروع فرمایا۔  ہالینڈ کے علاوہ بھی آپ کئی ممالک کے دورے پر گئے اور مختلف ممالک میں اسلامی تعلیمات کو عام کیا۔ مختلف مساجد اور  مدارس کی تعمیرات میں بھی آپ کی کاوشیں شامل رہیں۔

سفرِ آخرت :

طویل علالت کے بعد 9 ستمبر2021ء کو آپ اس دنیائے فانی سے روانہ ہوکر اپنے مالکِ حقیقی کے دربار میں حاضر ہوگئے ، اِنَّا لِلہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْن! آپ کی تدفین ہندوستان کے صوبہ اترپردیش کے ضلع مئو میں آپ کے آبائی علاقہ گھوسی میں ہوئی۔  

حضرت کے وصالِ پُرملال کے بعد مدنی چینل پر مدنی مذاکرے کے دوران ان کا ذکرِ خیر ہوا تو نگرانِ شوریٰ مولانا حاجی محمد عمران عطّاری نے اپنے جذبات کا اظہار یوں کیا : “ ہالینڈ کے سفر کے دوران ایک مسجد میں تربیتی اجتماع تھا ، وہاں حضرت کرم فرماتے ہوئے تشریف لائے اور ہمیں ملاقات سے مشرف فرمایا۔ حضرت کی امیرِ اہلِ سنّت سے جو محبت ہے اس سے دنیا واقف ہے ، ملاقات کے دوران بھی یہی تذکرہ جاری رہا اور حضرت نے ہمیں امیرِ اہلِ سنّت کی شان میں لکھی ہوئی نئی منقبت سنائی۔ دعوتِ اسلامی کے ذمّہ داران پر حضرت بہت شفقت فرماتے تھے اور اپنے متعلقین کو مدنی ماحول سے وابستگی کی ترغیب دلاتے تھے۔ “

اس موقع پر امیرِ اہلِ سنّت نے کچھ یوں ارشاد فرمایا : حضرت سے میرا پہلا غائبانہ تعارف ان کی ضخیم کتاب “ بزمِ اولیاء “ کے ذریعے ہوا جو امام یافعی  رحمۃُ اللہِ علیہ  کی کتاب “ روض الریاحین “ کا اردو ترجمہ ہے۔ اس میں حضرت نے نہ صرف ترجمہ فرمایا بلکہ کتاب کی ترتیب بھی ازسرِ نو فرمائی ، تب سے ان سے تعارف ہوگیا کہ یہ ایک سنی عالمِ دین ہیں۔ بعد میں مبلغین اور نگرانِ شوریٰ کے ذریعے ان کی دعوتِ اسلامی اور مجھ سے محبت کی خبریں بھی ملتی رہیں اور یوں تعارف بڑھتا گیا۔ جو بھی سنیت کا مخلص محبت کرنے والا ہوگا وہ اِنْ شآءَ اللہ آپ کو دعوتِ اسلامی سے محبت کرنے والا ملے گا۔ اللہ ربّ العزّت انہیں غریقِ رحمت فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ ، ماہنامہ فیضانِ مدینہ ، کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code