احکامِ تجارت

* مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

ماہنامہ نومبر 2021

پیون(Peon) کو ٹپ(Tip) وغیرہ دینا کیسا؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ آفس میں جو تنخواہ دار پیون وغیرہ ہوتے ہیں انہیں کمپنی کا عملہ ان کے باس وغیرہ ٹپ دے دیتے ہیں جیسے کوئی چیز منگوائی تو عموماً بچنے والے پیسے ان کو دے دیتے ہیں تو کیا یہ دینا، رشوت میں آئے گا؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب: بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ غریب آدمی ہونے کی وجہ سے اس کی مدد کردیتے ہیں اس میں تو کوئی حرج نہیں لیکن بعض اوقات یہ ذہن ہوتا ہے کہ یہ مجھے لفٹ نہیں کرواتا یا یہ فلاں کے کام زیادہ کرتا ہے میری بات زیادہ نہیں سنتا، میں اس کو پیسے دینا شروع کروں تو یہ مجھے زیادہ توجہ دے گا۔ اس طور پر دینا رشوت ہے یعنی اس موقع پر اپنا کام نکلوانے کے لئے پیسے دے گا تو پھر یہ رشوت ہوگا۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

قبرستان سے پھول چُرا کر بیچنا

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ قبرستان سے پھول چرا کر بیچنا کیسا؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب: قبرستان میں لوگ اپنے پیاروں کی قبروں پر جو پھول ڈالتے ہیں، اس کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ یہ پتیاں جب تک تَر رہیں گی تسبیح کرتی رہیں گی اور اس سے مُردے کو فائدہ پہنچے گا، اس کی وحشت میں کمی آئے گی، اسے اُنسیت حاصل ہوگی، ورنہ قبریں کوئی زیب و زیبائش کی جگہ نہیں ہیں کہ یہاں خوبصورتی کے لئے پھول ڈالے جائیں اور خوبصورتی کے لئے ڈالنے بھی نہیں چاہئیں۔ جنازے پر پھول ڈالنے کی فتاویٰ رضویہ میں صراحت موجود ہے کہ زینت کے لئے ڈالنا مکروہ ہے، ہاں تر چیز اللہ کا ذکر کرتی ہےلہٰذا اس سے مُردے کو راحت پہنچے گی اس مقصد سے جنازے پر بھی ڈالنے میں حرج نہیں۔

چنانچہ اعلیٰ حضرت  علیہ الرحمہ  لکھتے ہیں: ”پھولوں کی چادر بہ نیتِ زینت مکروہ، اور اگر اس قصد سے ہو کہ وہ بحکمِ احادیث خفیف الحل و طیب الرائحہ و مسبحِ خدا و مُونسِ میت ہے تو حرج نہیں۔“ (فتاویٰ رضویہ، 9/137)

جہاں تک ان پھولوں کو اٹھا کر بیچنے کا سوال ہے تو پھول ڈالنے والے ہرگز یہ بات پسند نہیں کریں گے کہ کوئی ان پھولوں کو اُٹھا کر لے جائے، یہ ملکِ غیر ہے اٹھانے والے کی ملک نہیں ہے، نہ ہی اس کے لئے مباح کئے گئے ہیں۔ لہٰذا کسی اور شخص کا انہیں اٹھاکر لے جانا یا فروخت کرنا ہرگز جائز نہیں۔

نوٹ: مزارات پر جو پھول ڈالے جاتے ہیں ان کا معاملہ قدرے مختلف ہے کیونکہ وہاں جو چیزیں آتی ہیں ان کاعرف جدا ہے، عام قبروں والے اس جواب کو وہاں منطبق نہ کیا جائے کچھ احکام میں فرق آسکتا ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

جعلی بل بنوا کر میڈیکل الاؤنس لینا

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ بعض کمپنیاں اپنے ملازمین کو میڈیکل الاؤنس دیتی ہیں یہ ارشاد فرمائیں کہ ملازم کا جعلی میڈیکل بل بنواکر کمپنی سے الاؤنس لینا کیسا ہے؟ نیز بعض اوقات دوائیں بچ جاتی ہیں تو ان کا کیا حکم ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب: ناحق طریقے سے کسی کا مال لینا جائز نہیں۔ جو مریض نہیں ہے وہ یہ ظاہر کرے کہ میں مریض ہوں اور اس طرح جعلی بل بنوا کر الاؤنس لے لے تو یہ جائز نہیں بلکہ یہ خیانت اور دھوکا ہے جو کہ حرام و گناہ ہے۔

البتہ جھوٹ اور دھوکا کے بغیر کمپنی کے اصول و قوانین کے مطابق سہولت حاصل کرتے ہوئے دوائی لی اور استعمال کے بعد بچ گئی تووہ ملازم ہی کی ملکیت ہے لہٰذا وہ رکھ سکتا ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

الیکٹرک کمپنی کا یونٹ کی الگ الگ رقم چارج کرنا

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ الیکٹرک کمپنی تین سو یونٹ تک کے استعمال پر 15 روپے فی یونٹ کے حساب سے پیسے چارج کرتی ہے اور اس سے اوپر جو استعمال کرے اس کا 22 روپے فی یونٹ کے حساب سے چارج کرتے ہیں، یوں جیسے جیسے یونٹ بڑھتے ہیں وہ قیمت بڑھاتے جاتے ہیں حالانکہ بجلی استعمال کرنے میں توکوئی فرق نہیں ہوتا۔ پھر یہ قیمت بڑھانا کیسا ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب: بہت سی چیزیں ایسی ہیں جہاں مقدار کی بنیاد پر کمی بیشی ہوتی ہے جیسے موبائل کمپینوں کے مختلف پیکیجز مختلف قیمت کے ہوتے ہیں اور ان میں مختلف مقدار میں منٹس وغیرہ ہوتے ہیں، اسی طرح یہاں بھی ہے کہ اگر تین سو یونٹ استعمال ہوں گے تو یہ پیکیج ہے اور اگر پانچ سو یونٹ استعمال ہوں گے تو یہ پیکیج ہے۔

یوں تقسیم کرنے سے کوئی شرعی خرابی واقع نہیں ہورہی لہٰذا فقہی اعتبار سے یہ درست ہے۔

البتہ صارف (Consumer) کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس طرح کی قیمتوں کے گراف پر متعلقہ فورم پر اعتراض کرسکتا ہے کہ قیمتیں کم کی جائیں یا مساوی کی جائیں۔ جیسا کہ کسی کوکراچی سے لاہور جانا ہے اور ریل کا ٹکٹ مہنگا ہے جانے والا اپنی رضا مندی سے خرید کر جائے گا یہ لین دین جائز ہے لیکن اس کا یہ حق ہے کہ کسی فورم پر یہ آواز آٹھائے کہ ٹکٹ سستا کیا جائے، اس حق کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔

قیمتوں کے مختلف ہونے کا یہ معاملہ صرف بجلی کے بل ہی میں نہیں بلکہ اور کئی معاملات میں ہم یہ چیزیں دیکھتے ہیں مثلاً ایک ڈاکٹر کسی اچھے علاقے میں بیٹھتا ہے تو اس کی فیس کچھ اور ہوتی ہے اور وہی ڈاکٹر جب کسی متوسط علاقے میں بیٹھتا ہے تو اس کی فیس کچھ اور ہوتی ہے۔

اسی طرح ایک چیز کسی بڑے شاپنگ مال سے خریدیں تو مہنگی ملے گی وہی چیز کسی عام دکان سے خریدیں تو سستی ملے گی۔

یوں مختلف لوگوں نے مختلف چیزوں کے مختلف اسٹینڈرڈ بنائے ہوتے ہیں گاہک قیمت جانتے ہوئے چیز خریدتا ہے سودا رضا مندی سے ہوتا ہے اسے ناجائز عقد نہیں کہہ سکتےجبکہ دیگر وجوہات سے بھی کوئی شرعی خرابی نہ پائی جاتی ہو۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* محقق اہلِ سنّت، دار الافتاء اہلِ سنّت نورالعرفان کھارادر، کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code