شرحِ صدْرِ صدارت پہ لاکھوں سلام

باتیں میرے حضور کی

شَرحِ   صَدْرِ صَدارت پہ لاکھوں     سلام

* مولانا کاشف شہزاد عطّاری مدنی

ماہنامہ نومبر 2021

سرکارِ دوعالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی ایک عظیمُ الشّان فضیلت یہ ہے کہ چار مرتبہ آپ کا شَقِّ صَدْر ہوا۔ [1]یعنی حضرت سیّدُنا جبریلِ امین  علیہ السّلام  نے مبارک سینے کو چاک کرکے مقدس دل باہر نکالا ، سونے کے طَشْت میں آبِ زَمزم سے غسل دیا اور نور و حکمت سے بھر کر اس کی جگہ واپس رکھ دیا۔ [2]

پہلی بار شَقِّ صَدْر :

 حضرت سیّدُنا انس بن مالک  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  بچّوں کے ساتھ موجود تھے کہ جبریلِ امین  علیہ السّلام  آئے ، آپ کو پکڑ کر لٹایا ، سینہ چیر کر اس میں سے دل نکالا اور دل میں سے جما ہوا خون (خون کا لوتھڑا) نکال کر کہا : هٰذَا حَظُّ الشَّيْطَانِ مِنْكَ آپ کے اندر یہ شیطان کا حصہ تھا۔ [3] اس کے بعد جبریلِ امین  علیہ السّلام  نے مبارک دل کو سونے کے طَشْت میں آبِ زم زم سے دھویا اور سی کر دوبارہ اس کی جگہ رکھ دیا۔ (یہ منظر دیکھ کر) بچّے دوڑ کر حُضور  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی رضاعی والدہ (حضرت حلیمہ سعدیہ   رضی اللہ عنہا ) کے پاس پہنچے اور کہا : محمد( صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) کو قتل کردیا گیا ہے۔ یہ سُن کر لوگ جلدی جلدی آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ (مبارک چہرے کا) رنگ بدلا ہوا تھا۔ حضرت سیّدُنا انس بن مالک  رضی اللہ عنہ  کا بیان ہے کہ میں مبارک سینے پر اس سلائی کے نشان دیکھا کرتا تھا۔ [4]

غزالیِ زماں علّامہ سیّد احمد سعید کاظمی  رحمۃُ اللہِ علیہ  اس روایت کے تحت فرماتے ہیں : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شَقِّ صَدْر مبارک کے متعلق روحانی ، کَشْفی ، مَنامی (یعنی روحانی طور پر یا خواب میں ہونے) وغیرہ کی تمام تاویلات قطعاً باطل ہیں بلکہ یہ شَق اور چاک کیا جانا حِسّی ، حقیقی اور اَمرِ واقعی ہے کیونکہ سینۂ اَقدس میں سوئی سے سیئے جانے کا نشان چمکتا ہوا نظر آتا تھا۔ [5]

دوسری بار شَقِّ صَدْر :

 فرمانِ مصطفےٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ہے : میں دس سال کی عمر میں صحرا میں جارہا تھا کہ اچانک میں نے اپنے سر کے اوپر دو آدمیوں(یعنی جبرائیل و میکائیل  علیہما السّلام ) کو دیکھا ، ایک نے دوسرے سے پوچھا : کیا یہی ہیں؟ دوسرے نے جواب دیا : ہاں۔ ان دونوں نے مجھے پکڑ کر لٹایا اور میرے پیٹ کو چاک کردیا ، جبرائیل سونے کے ایک طشت میں پانی لارہے تھے جبکہ میکائیل میرا پیٹ دھو رہے تھے۔ پھر ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا : ان کا سینہ چاک کرو۔ میں نے دیکھا کہ میرا سینہ چاک ہوچکا ہے لیکن مجھے درد محسوس نہیں ہوا۔ اب اس فرشتے نے کہا : ان کا دل چِیرو اور اس میں سے کینہ اور حسد نکال دو۔ میرا دل چِیرا گیا اور اس میں سے خون کے لَوتھڑے جیسی چیز نکال کر پھینک دی گئی۔ پھر اس فرشتے نے کہا : ان کے دل میں شفقت اور رَحمت داخل کردو۔ دوسرے فرشتے نے میرے سینے میں چاندی جیسی کوئی چیز داخل کی اور اپنے پاس سے کوئی پِسی ہوئی چیز نکال کر اس پر چھڑک دی ، پھر میرے پاؤں کا انگوٹھا ہلا کر کہا : آپ تشریف لے جائیے۔ جب میں وہاں سے واپس آیا تو میرے دل میں چھوٹوں پر شفقت اور بڑوں کی عزت سما چکی تھی۔ [6]

بھرے اس میں اَسرار و علمِ دو عالَم

کُشادہ کیا حق نے سینہ تمہارا[7]

تیسری بار شَقِّ صَدْر :

 رحمتِ عالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے مَنّت مانی کہ ایک مہینے غارِ حرا میں حضرت خدیجۃُ الکبریٰ   رضی اللہ عنہا  کے ہمراہ اعتکاف کریں گے ، اتفاق سے یہ رمضان کا مہینا تھا۔ (اس دوران) ایک رات آپ (غار سے) باہر نکلے تو اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ کی آواز سنی۔ آپ نے گمان فرمایا کہ یہ کسی جِن کی آواز ہے اور جلدی سے حضرت خدیجۃُ الکبریٰ رضی اللہ عنہا  کے پاس تشریف لے گئے۔ اُمُّ المؤمنین نے آپ کو چادر اوڑھا کر پوچھا : اے اِبنِ عبداللہ! کیا بات ہے؟ ارشاد فرمایا : میں نے اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ کی آواز سنی اور میرے خیال سے یہ کوئی جِن ہے۔ اُمُّ المؤمنین نے عرض کی : اے اِبنِ عبداللہ! آپ کو خوش خبری ہو ، سَلام تو اچھی چیز ہے۔ اس کے بعد نبیِّ مکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ایک دفعہ باہر تشریف لائے تو دیکھا کہ جبریلِ امین  علیہ السّلام دھوپ میں موجود ہیں ، ان كا ايك بازو مشرق میں اور دوسرا مغرب میں ہے۔ اس موقع پر جبریلِ امین نے حُضور  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے کچھ گفتگو کی اور دوبارہ ملاقات کا وعدہ کرکے چلے گئے۔ آپ  علیہ السّلام  بتائے ہوئے دن پہنچے تو جبریلِ امین  علیہ السّلام  نے آنے میں تاخیر کردی ، جب آپ نے واپسی کا ارادہ کیا تو اچانک دیکھا کہ جبرائیل اور میکائیل  علیہما السّلام  موجود ہیں اور ان دونوں نے آسمان کے کنارے کو بھر دیا ہے۔ میکائیل  علیہ السّلام  آسمان و زمین کے درمیان رہے جبکہ جبرائیل  علیہ السّلام  نے نیچے اتر کر نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو گُدّی کے بَل لٹا دیا ، پھر (مبارک سینے کو چاک کرکے) مقدس دل نکالا اور اس میں سے جو اللہ پاک نے چاہا وہ باہر نکالا۔ اس کے بعد نورانی دل کو سونے کے طَشْت میں آبِ زم زم سے دھویا ، پھر اسے اس کی جگہ واپس رکھ کر سِی دیا اور زخم بند کردیا۔ اس کے بعد جبریلِ امین  علیہ السّلام  نے رَحمتِ عالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو پیٹ کے بل لٹاکر مبارک پُشت پر مہر لگائی یہاں تک کہ اس کا اثر آپ نے اپنے دل میں محسوس کیا ، پھر آپ کو سورۂ عَلَق کی ابتدائی پانچ آیات پڑھائیں۔ یہاں سے واپس آتے ہوئے اللہ کے محبوب  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  جس پتھر یا درخت کے پاس سے گزرتے وہ آپ کی خدمت میں سَلام پیش کرتے یہاں تک کہ جب اُمُّ المؤمنین حضرت بی بی خدیجۃُ الکبریٰ   رضی اللہ عنہا  کے پاس پہنچے تو انہوں نے بھی عرض کی : اَلسَّلاَمُ عَلَيْكَ يَارَسُوْلَ الله۔ [8]

چوتھی بار شَقِّ صَدْر :

 معراج کی رات رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  حطیمِ کعبہ میں آرام فرمارہے تھے کہ تین فرشتے حاضر ہوئے اور آپ کو اُٹھاکر زم زم شریف کے کنویں کے پاس لے آئے۔ ان تینو ں میں سے جبریلِ امین  علیہ السّلام  نے سرکارِ دوعالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے گلے سے لے کر مبارک سینے تک جسم کو چاک کیا اور (مبارک دل باہر نکال کر) آبِ زم زم سے دھویا ، پھر سونے کا ایک تھال لایا گیا جس میں ایمان اور حکمت سے بھرا ہوا سونے کا ایک برتن موجود تھا ، اس (برتن میں موجود علم و حکمت) سے مبارک دل کو بھر کر سِی دیا اور پھر سینے کو برابر کردیا۔ [9]

شَقِّ صَدْر کی حکمتیں :

اللہ کریم کا فرمانِ عظیم ہے : )اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَۙ(۱) ( ترجمۂ کنزُالعرفان : کیا ہم نے تمہاری خاطر تمہارا سینہ کشادہ نہ کردیا؟[10] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

حکیمُ الْاُمّت مفتی احمد یار خان  رحمۃُ اللہِ علیہ  اس آیت کے تحت فرماتے ہیں : سینہ کشادہ کرنے سے مراد یا سینہ چاک کرنا ہے یا سینہ کھولنا یا وسیع فرمانا۔ اگر پہلے معنی (یعنی سینہ چاک کرنا) مراد ہوں تو خیال رہے کہ حُضور ( صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) کا سینہ مبارک 3 یا 4 بار چاک کرکے قلبِ مبارک دھویا گیا۔ اوّل : بی بی حلیمہ دائی کے ہاں تاکہ دل میں کھیل کود کی رغبت نہ ہو ، پھر شروعِ شباب (یعنی جوانی کے آغاز میں) میں تاکہ جوانی کی غفلت نہ آنے پائے ، پھر عطاءِ نبوت کے قریب تاکہ دل بارِ نبوت کو برداشت کرسکے ، پھر معراج کی رات تاکہ عالَمِ مَلَکُوت کے نظارہ اور دیدارِ الٰہی کا تَحَمُّل ہوسکے ، یہ ظاہری شَرْحِ صَدْر ہے۔ [11]

اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَک سے یوں آواز آتی ہے

کُشادہ کر دیا اللہ نے سینہ محمد کا[12]

سونے کے طَشْت کے استعمال کی حکمتیں :

شارحِ بخاری امام بَدرُالدّین محمود بن احمد عینی  رحمۃُ اللہِ علیہ  نے شَقِّ صَدْر کے موقع پر قلبِ مصطفےٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو سونے کے طَشْت میں رکھنے کی چند ایمان افروز حکمتیں بیان فرمائی ہیں جنہیں قدرے ترمیم اور تسہیل و اضافے کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے : (1)سونا تمام دھاتوں میں سب سے اعلیٰ و افضل دھات ہے جبکہ قلبِ مصطفےٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  تمام دِلوں میں سب سے افضل دل ہے (2)سونے میں کئی ایسی خوبیاں ہیں جو کسی اور دھات میں نہیں ، یونہی قلبِ مبارک کو بھی بے شمار ایسے فضائل حاصل ہیں جو کسی اور مخلوق کے حصے میں نہیں آئے (3)سونے کو نہ آگ کھاتی ہے ، نہ مٹی بوسیدہ کرتی ہے اور نہ اسے زنگ لگتا ہے۔ قلبِ مصطفےٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو کسی قسم کے گناہ و معصیت کا زنگ نہیں لگتا ، مٹی اور آگ نہیں کھا سکتی (4)سونا تمام جواہرات میں سب سے وزنی ہے ، سونے کے طَشْت سے وحی کے وزن اور بوجھ کی طرف اشارہ ہے۔ [1]

قلبِ اقدس کو دھونے کی حکمت :

 غزالیِ زماں علّامہ سیّد احمد سعید کاظمی  رحمۃُ اللہِ علیہ  لکھتے ہیں : قلبِ اطہر کا زم زم سے دھویا جانا کسی آلائش(گندگی) کی وجہ سے نہ تھا کیونکہ حُضور سَیِّدِ عالَم  صلَّی اللہ علیہ وسلَّم سَیِّدُ الطَّیِّبِیْن وَالطَّاہِرِین (یعنی صاف ستھرے لوگوں کے سردار) ہیں ، ایسے طَیِّب و طاہر کہ ولادتِ باسعادت کے بعد بھی حُضور سَیِّدِ عالَم  صلَّی اللہ علیہ وسلَّم  کو غسل نہیں دیا گیا ، لہٰذا قلبِ اقدس کا زم زم سے دھویا جانا محض اس حکمت پر مبنی تھا کہ زم زم کے پانی کو وہ شَرَف بخشا جائے جو دنیا کے کسی پانی کو حاصل نہیں ، بلکہ قلبِ اطہر کے ساتھ ماءِ زم زم کو مَسْ (Touch) فرما کر وہ فضیلت عطا فرمائی گئی جو کوثر و تَسْنِیم کے پانی کو بھی حاصل نہیں۔ [2]

قلبِ مبارک میں آنکھیں اور کان :

حضرت جبریلِ امین  علیہ السّلام  نے (پہلی بار) مبارک دل کو شَقْ کرنے کے بعد جب آبِ زَم زَم سے دھویا تو فرمانے لگے : قَلْبٌ سَدِيْدٌ فِيْهِ عَيْنَانِ تَبْصُرَانِ وَاُذُنَانِ تَسْمَعَانِیعنی مبارک دل ہر قسم کی کَجِی (ٹیڑھے پن) سے پاک اور بے عیب ہے ، اس میں دو آنکھیں ہیں جو دیکھتی ہیں اور دو کان ہیں جوسنتے ہیں۔ [3]

شَقِّ صَدْر سے حیاتُ النبی کا ثُبوت :

 عام طور پر روح کے بغیر جسم میں زندگی نہیں ہوتی لیکن انبیائے کرام  علیہمُ الصّلوٰۃُ والسّلام  کے مقدس جسم ، روح قبض کئے جانے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں۔ انسان کا دل روح کا ٹھکانہ ہے لہٰذا جب کسی انسان کا دل اس کے سینے سے باہر نکال لیا جائے تو وہ زندہ نہیں رہتا لیکن رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا مبارک دل سینۂ اقدس سے باہر نکالا گیا ، اسے چیرا گیا اور وہ مُنْجَمِد (جما ہوا) خون جو جسمانی اعتبار سے دل کے لئے بنیادی حیثیت رکھتا ہے صاف کردیا گیا ، اس کے باوجود بھی رحمتِ عالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  بدستور زندہ رہے۔ یہ اس بات کی روشن دلیل ہے کہ روحِ مبارک قبض ہونے کے بعد بھی اللہ کے محبوب  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  زندہ ہیں کیونکہ جس کا دل بدن سے باہَر ہو اور وہ پھر بھی زندہ رہے ، اگر اس کی روح قبض ہوکر باہر ہوجائے تو وہ کب مُردہ ہوسکتا ہے۔ [4]

اے ہمارے پیارے اللہ پاک! قلبِ مصطفےٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے طفیل ہمارے دِلوں کو ایمان پر ثابت قدمی عطا فرما۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

رَفعِ ذکرِ جَلالت پہ اَرفع دُرُود

شَرحِ صَدْرِ صَدارت پہ لاکھوں سلام[5]

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ ، ماہنامہ فیضانِ مدینہ ، کراچی



[1] کشف الغمہ ، 2 / 53 ، زرقانی علی المواھب ، 7 / 191

[2] صراط الجنان ، 10 / 739

[3] یعنی اگر آپ کی ذاتِ مقدسہ میں شیطان کا کوئی حصہ ہوتا تو یہی خون کا لوتھڑا ہوسکتا تھا ، مگر جب یہ بھی نہ رہا تو اب ممکن ہی نہیں کہ ذاتِ مُقَدَّسہ سے شیطان کا کوئی تعلق کسی طرح سے ہوسکے۔ (نسیم الریاض ، 3 / 38 مفہوماً ، مقالاتِ کاظمی ، 1 / 159)

[4] مسلم ، ص88 ، حدیث : 413

[5] مقالاتِ کاظمی ، 1 / 209

[6] دلائل النبوۃ لابی نعیم ، ص128 ، رقم : 166

[7] قبالۂ بخشش ، ص30

[8] مسند ابو داؤد طیالسی ، ص215 ، حدیث : 1539 ، دلائل النبوۃ لابی نعیم ، ص125 ، رقم : 163

[9] بخاری ، 4 / 580 ، حدیث : 7517

[10] پ30 ، الم نشرح : 1

[11] نورالعرفان زیرِ آیتِ مذکور ، نسیم الریاض ، 3 / 70 مفہوما

[12] قبالۂ بخشش ، ص53

[13] عمدۃ القاری ، 11 / 600

[14] مقالاتِ کاظمی ، 1 / 85

[15] فتح الباری ، 14 / 407

[16] مقالاتِ کاظمی ، 1 / 159تسہیلاً

[17] حدائق بخشش ، ص304


Share

Articles

Comments


Security Code